ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ویسے تو ہمیشہ ہی سے فرقہ واریت کا جنون رہا ہے ۔ بی جے پی نے ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے اور فرقہ واریت کا جنون پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی تھی ۔ سماج کے دو بڑے اور اہم طبقات کے مابین دراڑ پیدا کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ کئی ذرائع کا استعمال کیا گیا اور کئی گوشوں کو استعمال کرتے ہوئے عوام کے دلوں کو ایک دوسرے سے متنفر کردیا گیا ۔ اب بھی اترپردیش میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ کئی مسائل ایسے رہے ہیں جن کو ہوا دیتے ہوئے ریاست کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاء کو متاثر کیاگیا ہے ۔ یہ درست ہے کہ اترپردیش ہو یا ملک کی کوئی اور ریاست رہی ہو فرقہ پرست اور جنونی عناصر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں لیکن یہ یکا دوکا ہوتے ہیں اور ان کا سماج میں کوئی مقام نہیں ہوتا ۔ تاہم حالیہ عرصہ میںجس طرح سے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا کام کیا گیا تھا اس کے نتیجہ میں اب یہ فرقہ واریت کا زہر مزید پھیلنے لگا ہے اور اترپردیش اس معاملے میںسب سے آگے دکھائی دیتی ہے ۔ یہاں چیف منسٹر سے لے کر گلی کے لیڈر تک اور پولیس کے عہدیدار تک ہندو ۔ مسلم کی بات کرنے لگے ہیں جبکہ ان تمام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہندو ہو یا مسلمان سب کوساتھ لے کر چلیں اورسب کے ساتھ مساوی سلوک کریں۔ ان کے حقوق کا تحفظ کریں ۔ ان کے فرائض کی یاد دہانی کروائیںاور حکومت دستور اور قانون میں طئے کردہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے ۔ پولیس انتظامیہ ہو یا نفاذ قانون کے دوسرے ادارے ہوں ان کو بھی ہندو ۔ مسلم کا راگ الاپے بغیر اوریہ دیکھے بغیر کہ جمعہ سالا میںکتنی بار آتا ہے اور ہولی کتنی بار آتی ہے اپنا کام کسی جانبداری اورا متیاز کے بغیر کرنا چاہئے ۔ اترپردیش میںایسا نہیں ہو رہا ہے ۔ اترپردیش میں ہوا پانی کو بھی ہندو مسلم کا رنگ دینے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ عیدوںاور تہواروںکو تو یہ رنگ دیدیا گیا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہ کوشش ابھی ہوئی ہے ۔ طویل عرصہ سے یہ کوششیں کی جا رہی تھیں اور اب یہ کوششیں ایک قدم آگے بڑھ کر دوسرے مرحلے میں پہونچتی دکھائی دے رہی ہیں۔
یہ اترپردیش ریاست ہی تھی جہاں ملک کے وزیراعظم نے سماج کے دو طبقات کے مابین ایک خط فاصل کھینچنے کی کوشش کی تھی ۔ انہوںنے عید اور دیوالی کا ذکر کیا تھا اور قبرستان و شمشان کا تذکرہ کرنے سے بھی گریز نہیںکیا تھا ۔ ملک کے وزیر اعظم ہوں یا پھر ریاست کے چیف منسٹر ہوںان کو سماج میں اگر دوریاں ہیں تو انہیںختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن یہاں تک معاملہ اس کے بالکل برعکس ہی ہے ۔ بات جہاں شمشان اورقبرستان سے شروع ہوئی تھی تو اب بات یہاںتک آ پہونچی کہ جمعہ سال میں 52 مرتبہ آتا ہے اور ہولی سال میں ایک بار آتی ہے ۔ یہ فرق کرنے کا پولیس انتظامیہ کو کوئی حق نہیں ہے اور یہ ان کی ڈیوٹی کی غیرجانبداری کے مغائر ہے ۔ اس کے باوجود ایسے بیانات کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہو رہی ہے بلکہ اس کو دہرایا جا رہا ہے اور یہ بات ملک کی دوسری ریاستوںمیں بھی کہی جانے لگی ہے ۔ سماج کے مختلف گوشوں کی جانب سے حالانکہ اس کی مذمت کی بھی کی جا رہی ہے اور ہندو بھائی کمبھ میلے کو یاد کرنے لگے ہیں جب بھگدڑ مچ گئی اور درجنوںافراد جان گنوا بیٹھے تو مسلمانوں نے یہ نہیں کہا دیکھا کہ وہ ہندو ہیں بلکہ انہوںنے اپنے گھر ‘ اپنی مساجد اورا پنے مدرسے کھول کر ہندووں کی مدد کی اور ان کی تسلی کی اور ان کے حوصلے بنائے ۔ یہ مثال مسلمانوںنے قائم کی تھی لیکن انتظامیہ کی جانب سے اس کو فراموش کرتے ہوئے سماج کے دو بڑے طبقات کے مابین دوریوںکو مزید وسعت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
یہ بات طئے نظر آتی ہے کہ سیاستدان اپنی دوکانیںچمکانے کیلئے اس طرح کا کھیل مزید کھیلتے رہیں گے بلکہ اور بھی شدت کے ساتھ اس طرح کے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سماج میں نراج اور بدامنی و بے چینی کی کیفیت پیدا کرتے رہیں گے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اس بات کو سمجھیں اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں۔ ان کو مسترد کریں اور ان کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے خود آگے آئیں۔ عوام کو اب اس طرح کی کوششوںاورسازشوںکو ناکام بنانے کیلئے خود آگے آناچاہئے تاکہ سیاستدان اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور ہوجائیں اور ملک میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاء کو پروان چڑھایا جاسکے ۔