مختلف مقدمات میں تحقیقات کے معاملے میں ا ترپردیش پولیس کو مسلسل عدالتوں کی پھٹکار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اترپردیش کی پولیس کا طرز عمل کئی معاملات میں انتہائی متضاد ہے اور اس پر عدالتوں سے مسلسل تنقیدوں اور سرزنش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ لکھیم پور کھیری معاملے میں جہاں کسانوں کو جیپ سے روند دیا گیا اور چار کسانوں کی موت ہوگئی ہے اس معاملے میں یو پی پولیس کی تحقیقات انتہائی سست اور نامعقول ڈھنگ سے چل رہی ہیں۔ مرکزی وزیر کے بیٹے اس کیس میں گرفتار کئے گئے ہیں اور ان پر گاڑی سے کسانوں کو روند دینے کا الزام ہے ۔ اس کیس کی تحقیقات میں سپریم کورٹ نے خود ریاستی پولیس کی تحقیقات پر سوال اٹھایا ہے ۔ اس پر تنقید کی ہے اور اس کی سرزنش کی ہے ۔ گواہوں کے بیانات قلمبند کرکے عدالت میں پیش کرنے میں بھی یو پی پولیس نے تساہل سے کام لیا ہے ۔ اسی طرح ہاتھرس میں پیش آئے عصمت ریزی کے واقعہ پر پولیس نے انتہائی جانبدارانہ انداز میں کام کیا اور تحقیقات کرتے ہوئے ملزمین کے خلاف مقدمہ مضبوط کرنے کی بجائے ملزمین کو بچانے اور ان کے خلاف کیس کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ۔ انتہائی اہمیت کے حامل اور لڑکیوں کی عصمت و عفت اور انسانوں کی جان کے تلف ہونے پر پولیس انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں اور تساہل سے کام لے رہی ہے وہیں اگر کسی کو نشانہ بنانا ہے تو قانون کے تحت مقدمہ بنتا بھی ہے یا نہیں اس کی بھی جانچ نہیں کی جا رہی ہے ۔ اسی طرح کے ایک معاملے میں دہلی ہائیکورٹ نے یو پی پولیس کو کھلی پھٹکار سنائی ہے ۔ عدالت نے ریمارک کیا کہ ’’ یو پی میں چلتا ہوگا ۔ یہاں نہیں ‘‘ ۔ یہ ریمارک در اصل ساری اترپردیش پولیس کی کارکردگی اور اس کی ساکھ پر ہی سوال پیدا کرنے کیلئے کافی ہے ۔ یہ معاملہ در اصل ایک خاتون کی اپنے افراد خاندان کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے نوجوان سے شادی سے متعلق ہے ۔ یہ خاتون یو پی کو چھوڑ کرد ہلی چلی آئی تھی اور اس کے اغواء ‘ دھمکانے اور زبردستی شادی کرنے کا دعوی کرتے ہوئے اس کی والدہ نے شکایت درج کروائی تھی اور یو پی پولیس نے تفصیل جانے بغیر ہی کارروائی کی ۔
یو پی پولیس نے دہلی پہونچ کر شوہر کے بھائی اور والد کو گرفتار کرلیا ۔ اس گرفتاری پر عدالت نے سخت اعتراض کیا ہے ۔دہلی ہائیکورٹ نے واضح کیا کہ خاتون بالغ ہے ۔ اس نے اپنی مرضی سے اپنا گھر چھوڑا تھا ۔ اپنی مرضی سے اس نے اپنی پسند کے شخص سے شادی کی تھی اور اس کے اغواء ‘ زبردستی شادی کروانے اور دھمکانے وغیرہ کے الزامات قابل قبول ہی نہیں ہیں۔ اس خاتون اورا س کے شوہر نے دہلی ہائیکورٹ میں شوہر کے والد اور بھائی کی گرفتاری پر درخواست دائر کی تھی ۔ خاتون کے خود عدالت سے رجوع ہونے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس کے شوہر کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں۔ اترپردیش پولیس نے اس مسئلہ میں یا تو تعصب سے کام کیا ہے یا پھر سیاسی اثر و رسوخ کے تحت گرفتاری عمل میں لائی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یو پی پولیس نے دہلی پولیس کو مطلع کئے بغیر دہلی سے ان دونوں کو گرفتار کیا تھا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ قانون کی روسے جو الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ قابل قبول ہو ہی نہیں سکتے ۔ ایسا طرز عمل اترپردیش پولیس کو اختیار کرنے سے قبل تمام تفصیل اور حقائق کا جائزہ لینے کی ضرورت تھی لیکن اپنے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور لا پرواہی والے رویہ کو جاری رکھتے ہوئے یو پی پولیس نے یہ کارروائی کی جس پر دہلی ہائیکورٹ نے سخت ترین ریمارک کیا اور کہا کہ یو پی پولیس نے جو کچھ کیا ہے وہ شائد اترپردیش میں چلتا ہوگا لیکن یہاں ( دہلی میں ) نہیں ۔ یہ ریمارک پوری پولیس فورس کیلئے باعث فکر ہے ۔
ملک کی کسی بھی ریاست کی پولیس ہو اسے اپنے پیشہ اور عہدہ کے وقار کا خیال کرتے ہوئے انتہائی پیشہ ورانہ اور دیانتدارانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ اترپردیش میں پولیس کے نام پر دادا گری چلتی ہے ۔ پولیس جسے بچانا چاہے اس کے خلاف تحقیقات میں انتہائی سست روی اختیار کی جاتی ہے ۔ تحقیقات کو غلط سمت دیتے ہوئے ملزمین کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اگر کسی کو پھنسانا ہوتا ہے تو فرضی دعووں پر بھی ضرورت سے زیادہ حرکت میں آتے ہوئے کارروائی کی جاتی ہے ۔ یو پی پولیس کو مسلسل عدالتوں کی پھٹکار کے بعد کم از کم اب اپنے رویہ اور کارکردگی میں تبدیلی لانی چاہئے ۔
