اترپردیش پولیس کو ایسا لگتا ہے کہ عدالتوں کی پھٹکار سہنے کا تجربہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ایک سے زائد مواقع پر ملک کی مختلف عدالتوں نے یو پی پولیس کو غیر جانبداری سے کام کرنے اور اپنے فرائض پوری سنجیدگی اور دیانتداری کے ساتھ انجام دینے کی ہدایت دی ہے ۔ اس کے کچھ اقدامات کی سرزنش بھی کی گئی ہے ۔ اب سنبھل میں پیش آئے واقعات پر بھی سپریم کورٹ نے یو پی پولیس کو واضح الفاظ میں ہدایت دی ہے کہ وہ مکمل اور پوری غیرجانبداری سے کام کرے ۔ یہ ہدایت سنبھل میں پیش آئے واقعات سے متعلق معاملہ میں دی گئی ہے اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اترپردیش کی پولیس کی جانبداری مشکوک ہوگئی ہے ۔ یو پی پولیس کی جانب سے ایسے بے شمار اقدامات کئے گئے ہیں جو غیرجانبدار نہیں تھے ۔ یو پی پولیس نے کئی مواقع پر اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف انتہائی جانبدارانہ رویہ اختیار کیا تھا اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ چاہے وہ بلڈوزر کے ذریعہ مکانات کا انہدام ہو یا پھر احتجاج کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے ان پر بھاری جرمانے عائد کرنے کا معاملہ ہو یا پھر کوئی اور مسئلہ ہو ۔ تقریبا ہر معاملے میں یو پی کی پولیس کو عدالتوں کی پھٹکار کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ بلڈوزر کارروائی پر بھی یو پی حکومت کو عدالتوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ واضح کردیا گیا تھا کہ بلڈوزر سے کسی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ فوری روکا جانا چاہئے اور اس طرح کی کارروائیوں کیلئے ملک بھر کیلئے رہنما خطوط بھی واضح کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اسی طرح یو پی میں کانوڑ یاترا کے دوران مسلم دوکانداروں کے نام اپنی اپنی دوکانات پر لکھنے کے احکام پر بھی اسی طرح کی سرزنش کی گئی تھی ۔ غرض یہ کہ ایک سے زائد مواقع پر یو پی پولیس کو ملک کی عدالتوں اورا ب سپریم کورٹ کی جانب سے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پوری اور مکمل غیرجانبداری کے ساتھ کام کرے ۔ سنبھل میں پیش آئے واقعات انتہائی حساس اور سنگین نوعیت کے ہیں۔ ایسے معاملات میں غیر جانبداری لازمی ہے ۔ خاص طور پر پولیس اور انتظامیہ کو پوری دیانتداری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
سنبھل میں ایک پانچ سو سال قدیم مسجد کو نشانہ بناتے ہوئے اچانک ہی سروے کرنے کا حکم دیدیا گیا اور پولیس کی بھاری جمیعت سروے کیلئے وہاں پہونچ گئی ۔ جھڑپیں ہوئی اور پولیس نے انتہائی غیرذمہ دارانہ رول ادا کرتے ہوئے نہ صرف سنگباری کی بلکہ فائرنگ بھی کی جس کے نتیجہ میں تین بے قصور اور نہتے مسلم نوجوان شہید ہوگئے ۔ تین گھر اجڑ گئے ۔ ایسی کارروائیاں انسانیت کے مغائر حرکت کہی جاسکتی ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ اترپردیش کی پولیس نے غیرجانبداری سے کام نہیں لیا بلکہ ریاستی حکومت اور برسر اقتدار بی جے پی کی طرح فرقہ وارانہ منافرت کے ساتھ کام کیا ہے اور احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر فائرنگ کردی تھی ۔ کئی مواقع ایسے رہے ہیں جب پولیس اور انتظامیہ کی حرکتوں پر سوال کئے گئے ہیں اور ان کی سرزنش کی گئی ہے اس کے باوجود نہ ریاستی حکومت کے طرز عمل میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ ہی پولیس قواعد و ضوابط کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پوری غیرجانبداری کے ساتھ پورا کرنے کیلئے تیار ہوئی ہے ۔ ان کا طرز عمل اب بھی قابل اعتراض ہے اور اسی وجہ سے ریاستی پولیس فورس کی بدنامی ہو رہی ہے ۔ ریاستی حکومت کو تو نہ اپنے امیج کی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ کسی کی مخالفت یا سرزنش کو اہمیت دینے تیار ہے ۔ پولیس فورس کو اس معاملے میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کا امیج داؤ پر لگ رہا ہے اور سرکاری سرپرستی زیادہ دن برقرار نہیں رہ سکتی ۔ حکومت اگر تبدیل ہوجائے تو پھر پولیس کی امیج کو بدلنا آسان نہیں رہ جائے گا ۔
سنبھل کے واقعات نے سارے ملک میں تشویش کی لہر پیدا کردی ہے ۔ فرقہ پرست عناصر کی جانب سے ملک میںفرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کے منصوبوں کو عملی شکل دی جا رہی ہے اور اترپردیش کی پولیس ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں اپنا رول بھی ادا کر رہی ہے ۔ پولیس کا کام فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کو ناکام بنانا ہے ۔ راست یا بالواسطہ طور پر ان کی مدد کرنا نہیں ہے ۔ ملک کے قانون کے مطابق جو ذمہ داری پولیس فورس اور دیگر نفاذ قانون کی ایجنسیوں کو دی گئی ہے اس کو پورا کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔سیاسی آقاوں کی خوشنودی سے ہمیشہ کام نہیں کیا جاسکتا ۔