ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی پولیس کی کارکردگی مسلسل مشکوک ہوتی جا رہی ہے ۔ ایک ہسٹری شیٹر جو 60 مقدمات میں ماخوذ ہے وہ گرفتاری اور انکاونٹر سے بچتا رہتا ہے اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں آتا اور جب پولیس اسے گرفتار کرنے اس کے گھر پر چھاپہ مارتی ہے تویہ نہ صرف خود اپنے چند حواریوں کے ساتھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے بلکہ انکاونٹر میں پولیس کے 8 اہلکار بھی مارے جاتے ہیں۔ اترپردیش پولیس محض دکھاوے اور عوام کے غصہ اور جوابدہی سے بچنے کیلئے اس کے گھر کو منہدم کردیتی ہے ۔ دیواریں گرادیتی ہے ۔ گاڑیاں تباہ کردیتی ہے اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس مجرم کے گھر کی دیواروں میں سے ہتھیار برآمد ہوئے ہیں۔ اب یہ مجرم فرار ہے ۔ اسے گرفتار کرنے کیلئے پولیس کی 40 ٹیمیں سرگرم ہیں لیکن وہ پولیس کے ہاتھ آنے سے بچنے میں کامیاب رہا ہے ۔ جو اطلاعات گشت کر رہی ہیں ان کے مطابق اس چھاپے سے قبل ہی اسے ایک پولیس اسٹیشن سے فون کال موصول ہوئی اور اسے اس دھاوے کی قبل از وقت اطلاع دیدی گئی تھی جس کے نتیجہ میں وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی ۔ سوشیل میڈیا پر کچھ تصاویر بھی گشت کروائی جا رہی ہیں جن میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس ہسٹری شیٹر کے بی جے پی کے اعلی قائدین سے قریبی روابط تھے ۔ ایک تصویر میں اس کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کے ساتھ موجود رہنے کا ادعا کیا گیا ہے تو دوسری تصویر میں سابق چیف منسٹر مدھیہ پردیش اوما بھارتی کے ساتھ موجود رہنے کا دعوی کیا گیا ہے ۔ یہ سارا معاملہ ایک طرح سے سیاسی اور پولیس کی سرپرستی کا دکھائی دے رہا ہے اور اب جبکہ اس مجرم کے ہاتھوں آٹھ پولیس اہلکار مارے گئے ہیں تو پولیس اس کی تلاش کر رہی ہے لیکن وہ پولیس کے ہاتھ نہیں آ رہا ہے ۔ جو الزامات پولیس پر عائد کئے جا رہے ہیں ان کے مطابق مقامی پولیس عملہ ہی اس کو بچانے کا کام کر رہا تھا ۔ نہ صرف اس کے خلاف درج درجنوں مقدمات میں اس کی گرفتاری عمل میں آ رہی تھی بلکہ اسے پولیس کارروائی کی قبل از وقت اطلاع دیتے ہوئے فرار ہونے میں مدد بھی کی گئی ہے ۔
اترپردیش میں اکثر و بیشتر لا اینڈ آرڈر انتہائی ابتر ہونے کی شکایات عام ہوتی ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں قانون سے زیادہ مجرموں کا راج ہوتا ہے ۔ قانون ان مجرموں کے سامنے بے بس نظر آتا ہے ۔ پولیس فورس میں ایسے بے شمار اہلکار اور عہدیدار ہیں جو مجرمین کی مدد کرتے ہیں اور انہیں بچانے میں سرگرم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ لوگ عوام کی رکھوالی کرنے کی بجائے مجرمین کی رکھوالی کرتے ہیں اور اس کے عوض میںخود فائدے اٹھاتے ہیں۔ رشوتیں حاصل کرتے ہیں جو تحائف کی شکل میں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ غریب عوام کے ساتھ وہاں انتہائی نازیبا سلوک کیا جاتا ہے ۔ پولیس اسٹیشنوں سے رجوع ہونے سے عوام میں خوف ہوتا ہے اور پولیس کو مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں خوف محسوس ہوتا ہے ۔ یہ ایک عام تاثر ہے کہ اترپردیش کے غنڈہ عناصر کو بڑی حد تک سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے اور اسی سیاسی سرپرستی کی وجہ سے یہ عناصر پولیس سے دوستیاں گانٹھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جنہیں سیاسی قائدین بھی اپنی مقصد براری کیلئے استعمال کرتے ہیں اور انہیں کے ذریعہ پولیس عملہ بھی خوش رہتا ہے ۔ ہسٹری شیٹر وکاس دوبے کے فرار کے معاملے میں جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے یہ تمام الزامات درست ثابت ہوجاتے ہیں کہ پولیس مجرمین کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ان کو قانون اور کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی سے بچانے میں سرگرم رول ادا کرتی ہے۔
اب ایک ملزم کو گرفتار کرنے کیلئے 40 ٹیمیں بنائی گئی ہیں لیکن وہ ہنوز قانون کے شکنجے سے بچنے میں کامیاب ہے ۔ اس کے فرار میں کچھ پولیس عملہ کو معطل بھی کیا گیا ہے لیکن یہ صرف معمولی عہدوں کے لوگ ہیں ۔ ضرورت یہ ہے کہ ساری یو پی پولیس میں وسیع تر اصلاحات لائی جائیں۔ پولیس کو ہر معاملے میں جوابدہ بنایا جائے ۔ مجرمین سے ساز باز رکھنے والے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ انہیں فورس سے برطرف کیا جائے ۔ پولیس عہدیداروں میں قانون کی پابندی کا جذبہ پیدا کیا جائے ۔ جب تک انہیں جوابدہ نہیں بنایا جائیگا وہ مجرمین کے ساز باز کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ اب تک کی یو پی پولیس کی جو کارکردگی ہے وہ باعث شرم ہے اور اسے اپنی کارکردگی پر پیدا ہونے والے شکوک کو رفع کرنا ہوگا۔
