چراغ کیا سوچ کر بجھے ہیں ستارے ڈوبے ہیں کیا سمجھ کر
میں شامِ غربت میں آنسوؤں کے دئے جلانا بھی جانتا ہوں
اب جبکہ اترپردیش اسمبلی انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے سبھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے عملا تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ بی جے پی نے ابھی سے اپنی حکمت عملی کی تیاری شروع کردی ہے ۔ جو تبدیلیاں اس کے خیال میں ضروری تھیں وہ بھی کردی گئی ہیں۔ ذمہ داریوں کی تقسیم بھی عمل میں آنے والی ہے اور لمحہ آخر میں مختلف جماعتوں سے اتحاد وغیرہ کو قطعیت دی جائے گی ۔ دوسری جانب سماجوادی پارٹی نے بھی اکھیلیش یادو کی قیادت میں اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اکھیلیش یادو کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی انتخابات کیلئے چھوٹی مقامی جماعتوں سے اتحاد کرے گی اور بڑی جماعتوں سے اتحاد کا امکان نہیں ہے ۔ اسی طرح بی ایس پی کی تیاریاں بھی خاموشی سے جاری ہیں۔ بی ایس پی نے ابھی تک اپنی حکمت عملی کا تعین نہیں کیا ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ بی ایس پی برہمن ووٹ حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے اور چند فیصد برہمن ووٹ بی جے پی سے ہٹ جاتے ہیں تو اس کا برسراقتدار پارٹی کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ ان ساری جماعتوں کے درمیان کانگریس نے بھی تنہا مقابلہ کی تیاری کردی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اترپردیش میں کانگریس کا موقف انتہائی کمزور ہے ۔ پارٹی برائے نام رہ گئی ہے ۔ تاہم پرینکا گاندھی کو اترپردیش کی ذمہ داری سونپتے ہوئے وہاں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پرینکا گاندھی ابھی تک اترپردیش کیلئے اتنا وقت نہیں دے پائی ہیں جتنا انہیں دینا چاہئے تھا ۔ اب کہا جا رہا ہے کہ کانگریس پارٹی کی جانب سے9 اگسٹ سے 9 ستمبر تک ایک ماہ کیلئے جارحانہ مہم چلاتے ہوئے کانگریس کی صفوں میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ایک ماہ تک عوام سے رجوع ہوتے ہوئے ریاست کی حالت زار کو بیان کیا جائیگا اور یہ سوال کیا جائیگا کہ یو پی کو اس حالت میں پہونچانے کیلئے ذمہ دار کون ہے ۔ بحیثیت مجموعی یو پی میں چونکہ کانگریس کا وجود برائے نام ہے ایسے میں اگر پارٹی پوری شدت اور جارحیت کے ساتھ مقابلہ کرتی ہے تو اس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے اور اگر اس مہم سے کچھ کامیابی ملتی ہے تو یہ کانگریس کیلئے خالص نفع ہوگا ۔
کانگریس کے سامنے اترپردیش میں سماج کے مختلف طبقات کی تائید حاصل کرنے کا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ پارٹی ریاست میں اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ پارٹی چاہتی ہے کہ نچلی سطح سے ایک بار پھر استحکام حاصل کیا جائے تاہم یہ کام اتنا آسان نہیں ہے ۔ خاص طور پر یو پی کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو وہاں ذات پات کی سیاست کا اثر زیادہ ہے ۔ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے قائدین اپنے عوام کی تائید حاصل کرنے اور اپنی متعلقہ جماعتوں کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ریاست دلت ووٹ بی ایس پی کے کھاتے میں رہے ہیں تاہم حالیہ عرصہ میں یہ ووٹ بھی بی جے پی کی سمت منتقل ہوگئے ہیں۔ بی جے پی برہمن طبقہ اور اعلی ذات والوں کے ووٹ بھی یکطرفہ طور پر حاصل کرلیتی ہے اور یہی اس کی کامیابی کی بنیاد بنے ہیں۔ یادو اور مسلمان ووٹ سماجوادی پارٹی کی جھولی میں جاتے ہیں۔ انتہائی پسماندہ طبقات اب بھی بی ایس پی کے ساتھ ہیں۔ ایسے میںکانگریس کیلئے ان تمام طبقات سے قابل لحاظ تعداد میں ووٹ اپنے کھاتے میںمنتقل کروانا آسان نہیں ہوگا ۔ خاص طور پر اس صورتحال میں جبکہ کانگریس کے پاس گراس روٹ لیول کے کارکنوں کی کمی ہے ۔ تنظیمی ڈھانچہ بھی مستحکم نہیں ہے اور عوام پر اثر انداز ہونے والے بڑے قائدین کی بھی کانگریس میں قلت ہے ۔ ایسے میں کانگریس کو صفر سے شروعات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ وقت طلب کام ہے ۔ اس کیلئے صبر آزما جدوجہد کرنی ہوگی ۔
کانگریس کیلئے اترپردیش میں صرف ایک مثبت پہلو ہے اور وہ یہ کہ پارٹی کے پاس کھونے کیلئے کچھ بھی نہیںہے ۔ وہ پہلے ہی عوامی تائید سے محروم ہے ۔ اگر پارٹی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے عوام کو درپیش اہمیت کے حامل مسائل کو اٹھاتے ہوئے اور حکومتوں کی ناکامیوں کو موثر ڈھنگ سے عوام میں پیش کرتے ہوئے اگر کچھ حد تک بھی عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ اس کیلئے ایک اچھی شروعات ہوسکتی ہے ۔ اس کیلئے ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور پرینکا گاندھی کو زیادہ سے زیادہ وقت اترپردیش میں صرف کرتے ہوئے پارٹی کو مستحکم کرنے کی جدوجہد کی کمان سنبھالنی ہوگی ۔
