نئی دہلی۔ کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تمام شہریوں ان کے عقائد سے بالاتر ہوکر یکساں بنیادوں پر طلاق کی راہ فراہم کرنے کے متعلق دائر کردہ ایک درخواست کو سپریم کورٹ میں چیالنج کیاہے۔
ایڈوکیٹ اشونی کمار کی جانب سے دائر کردہ پی ائی ایل میں مداخلت کی مانگ کرتے ہوئے مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے کہا ہے کہ پرسنل لاء ائین کے ارٹیکل14‘15اور44کی زد سے جانچ نہیں کی جاسکتی ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپادھیائے کی پی ائی ایل کو مسترد کرنے کی مانگ کرتے ہوئے اس بات کا دعوی کیاہے کہ یہ قابل قبول نہیں ہے۔
ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد کے دائر کردہ اس درخواست میں لکھا ہے کہ ائین کے ارٹیکل13میں ”رواج اور اس کا طریقہ کار“ میں عقائد کو شامل نہیں کیاگیاہے جو کسی مذہب کے ذاتی قانون میں سریت کرتا ہے۔
لہذا ذاتی قانون خارج کردیاگیاہے۔پچھلے سال ڈسمبر میں مذکورہ اعلی عدالت نے دو مفادعامہ کی درخواستوں پر نوٹس جاری کرتے ہوئے طلاق اور علیحدگی کے معاملات میں تمام مذاہب کے مابین یکسانیت لانے کی مانگ کی تھی۔
چیف جسٹس ایس اے بابڈو کی زیر قیادت ایک بنچ نے اس وقت کہاتھا کہ بہت احتیاط کے ساتھ ہم نوٹس جاری کررہے ہیں۔ سنوائی کے دوران عدالت عظمی نے اپادھیائے کے وکیل کو بتایاتھا کہ مذکورہ عدالت سنوائی کی منظوری دے سکتی ہے‘ مگر مسلئے یہ ہے کہ ہندو او رمسلم کمیونٹی کو ایک ساتھ کیو ں اس طرح لایاجائے۔
چیف جسٹس نے کہاتھا کہ”اس بات کا فیصلہ آپ کیسے کرسکتے ہیں ہندوازم‘ اسلام ا ورعیسائیت میں کیا کیاجانا چاہئے؟“۔ اپادھیائے کا استدلال تھا کہ عورت او رمرد دونوں کے لئے طلاق سب سے زیادہ بدبختی کا عمل بنا ہوا ہے اور73سال کی آزادی کے بعد بھی اس طریقے کار سے وابستہ طلاق کے ساتھ بہت احساس میں ہے اور اس میں نہ تو صنفی طور پر غیر جانبداری ہے اور نہ ہی مذہبی طور پر غیر جانبداری ہے۔
اپادھیائے کی درخواست میں کہاگیاہے کہ ”ہندو‘ بدھسٹ او رجین ہندو میریج ایکٹ1955کے تحت طلاق لے سکتے ہیں۔ مسلمان عیسائی او رپارسیوں کے اپنے قوانین ہیں۔ دوسرے مذہب سے واستہ جوڑے کو اسپیشل میریج ایکٹ1956کے تحت طلاق لینا ہے۔ اگرپارٹنر غیر ملکی ہے تو انہیں غیر ملکی میریج ایکٹ1969کے تحت طلاق لینا پڑے گا“