یکساں سیول کوڈ اور بی جے پی

   

دنیا میں کیا کسی کو کسی سے غرض نہیں
ہر کوئی جی رہا ہے فقط ذات کے لیے
بی جے پی بارہا یہ کہتی رہی ہے کہ یکساںسیول کوڈ پر عمل آوری کرنا اس کا ایک بنیادی ایجنڈہ ہے اور اس کے ذریعہ وہ کئی ریاستوںاور ملک گیر سطح پر انتخابات میںکامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔ جس طرح کسی زمانے میں رام مندر مسئلہ کو موضوع بناتے ہوئے بی جے پی نے انتخابی اور سیاسی فائدہ حاصل کیا ہے اسی طرح اب بی جے پی یکساں سیول کوڈ پر عمل آوری کرنے کے دعوے کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ جہاں تک اس پر عمل آوری کا سوال ہے تو یہ ہندوستان میں ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور اس پر اتفاق رائے پیدا ہونے کا امکان بالکل بھی نہیں ہے ۔ تاہم بی جے پی اس معاملے میںسنجیدہ نظر نہیںآتی بلکہ وہ محض اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور ان میںخوف پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے ذریعہ اکثریتی برادری کوبیوقوف بناتے ہوئے یا انہیں گمراہ کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔گذشتہ دنوں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جھارکھنڈ میں بی جے پی کے انتخابی منشور کی اجرائی عمل میںلائی ۔ اس منشور میںکئی باتیںکی گئی ہیںاور خاص طور پر ریاست میںیکساںسیول کوڈ کے نفاذ کی بات کہی گئی ہے ۔ وزیرداخلہ امیت شاہ نے بھی اپنی تقریر میںیہ واضح کیا کہ ریاست میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوجائے تو یکساں سیول کوڈ پر عمل آوری کی جائے گی ۔ اس طرح سے امیت شاہ نے بھی جھارکھنڈ کے اکثریتی رائے دہندوںکو بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے کیونکہ یکساں سیول کوڈ کا نفاذکوئی ریاستی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس پر مرکز سے کوئی فیصلہ ہونا چاہئے ۔ بی جے پی کے اقتدار والی کئی ریاستیں ہیں جہاں یکساں سیول کوڈ نافذ نہیں ہے ۔ ان ریاستوں میں قرار دادیں منظورکرتے ہوئے یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن یہ نافذ نہیں کیا گیا ہے ۔بی جے پی جھارکھنڈ کے عوام کو یہ وضاحت کرے کہ اس نے دوسری ریاستوں میں جہاں اس کا اقتدار ہے یکساں سیول کوڈ کیلئے کیا کیا ہے ؟ ۔ بی جے پی کو خود بھی احساس ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اور ملک کے کئی گوشوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی جانب سے مخالفت کی جا رہی ہے ۔
ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ مرکز میں بی جے پی کا اقتدار ہے ۔ یہ کوئی چند ماہ کا اقتدار نہیں ہے بلکہ لگاتار تیسری معیاد کیلئے بی جے پی مرکز میں برسر اقتدار آئی ہے ۔ پہلی دو معیادوں میں بی جے پی کو مستحکم اکثریت حاصل تھی اور اسے کسی کی تائید کی ضرورت نہیں تھی ۔ تیسری معیاد میں بی جے پی حکومت بیساکھیوں پر آگئی ہے اور نتیش کماراورچندرا بابو نائیڈو کے کندھوں پر مرکز کی مودی حکومت کا انحصار ہے ۔ تیسری معیاد کیلئے اقتدار میں رہنے کے باوجود بی جے پی نے ملک گیر سطح پر یکساںسیول کوڈ کے مسئلہ پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ اس سے بی جے پی کی عدم سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے اور ساتھ ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی اس طرح کے انتہائی اہم اور حساس نوعیت کے مسائل پر بھی محض سیاست کر رہی ہے اور اسے بھی احساس ہے کہ یکساں سیول کوڈ پر نفاذ آسان نہیں ہوگا اورا س کی شدت کے ساتھ مخالفت کی جائے گی ۔ بی جے پی مرکز میں اس کیلئے قانون سازی تک کرنے کے موقف میں نہیں ہے کیونکہ چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار اس کی تائید کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ انہیں بھی اپنی اپنی ریاستوں کی صورتحال کا اندازہ ہے اور وہ متنازعہ مسائل پر حکومت کے فیصلوں کی تائید و حمایت نہیں کرسکتے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں قانون سازی کی اجازت دے سکتے ہیں۔ ایسے میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی اس مسئلہ پر بھی محض عوام کو گمراہ کرنے کی سیاست کر رہی ہے اور اس کا مطمع نظر محض ووٹ اور اقتدار حاصل کرنا ہی ہے ۔
بی جے پی ہندوستان کی بڑی پارٹی بن گئی ہے اور وہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بھی قرار دیتی ہے ۔ ایسے میں اسے منفی سیاست کرنے کی بجائے مثبت سیاست پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ عوام کے مختلف طبقات کے مابین نفرت کو ہواد ینے والے مسائل میں عوام کو الجھانے کی بجائے عوام کے درمیان رابطوں اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔سیاست میںفائدہ حاصل کرنے کیلئے اس طرح کے حربے اختیار کرتے ہوئے بی جے پی بتدریج عوام کے اعتماد سے محروم ہو رہی ہے اور اس کا ثبوت لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے بھی مل چکا ہے ۔ بی جے پی کو خود کے محاسبہ کی ضرورت ہے ۔