یکساں سیول کوڈ کاراگ

   

آس کے بندے ہیں پھیلائے ہوئے ہیں دامن
دیکھنا یہ ہے کہ کب دستِ کرم بڑھتے ہیں

جیسے جیسے ملک کی اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات اور قومی سطح پر عام نتخابات کا وقت قریب آتا ہے ویسے ویسے بی جے پی کی جانب سے کچھ نہ کچھ اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہوجاتی ہیں۔ ویسے تو جس وقت سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے اسی وقت سے کئی ایسے گوشے اور عناصر سرگرم ہوگئے ہیں جن کا واحد مقصد و منشا صرف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا ہوتا ہے ۔ یہ گوشے اور طبقات صرف اقلیتوںکو نشانہ بنانے کے ایک نکاتی ایجنڈہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس تعلق سے بیان بازیاں کرتے ہوئے قوانین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ دستوری گنجائش کو بھی بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے ۔ یہ عناصر حالانکہ حکومت میں شامل نہیں ہوتے لیکن ان کے بیانات سرکاری احکام کی طرح جاری کئے جاتے ہیں۔ ان عناصر کے خلاف حکومتیں کوئی کارروائی کرنے کی بجائے انہیں پشت پناہی فراہم کرتی ہیں اور بالواسطہ طور پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ یہ کوششیں اپنی جگہ ہوتی رہتی ہیں اور جب کبھی انتخابات کا وقت قریب آجاتا ہے تو خود بی جے پی اور اس کے قائدین بھی اسی میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اب جبکہ گجرات اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ایسے میں یہ کوششیں تیز ہوگئی ہیں کہ سماج میں مذہبی بنیاد پر نفرت پھیلائی جائے ۔ سماج کے بڑے اور اہم طبقات کو ایک دوسرے سے متنفر کردیا جائے ۔ ان کے تعلق سے رسواء کن مہم شروع کی جائے اور نت نئے انداز سے انہیں نشانہ بنایا جائے ۔ جس طرح ہماچل پردیش اور ارونا چل پردیش میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کے تعلق سے حکومت کی جانب سے کمیٹیاں بنائی گئی ہیں اسی طرح کی ایک کمیٹی قائم کرنے کا گجرات میں بھی اعلان کردیا گیا ہے ۔ گجرات میں اسمبلی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے سے ابھی تک الیکشن کمیشن نے گریز کیا ہوا ہے ۔ یہ شبہات تقویت پاتے ہیں کہ شائد بی جے پی کو اس طرح کے اقدامات کا اعلان کرنے کیلئے وقت دیا گیا ہے اور دوسری ریاست کے ساتھ وہاں بھی انتخابات کیلئے شیڈول کا اعلان کرنے سے گریز کیا گیا ہے ۔
گجرات میں بی جے پی دو دہوں سے زیادہ عرصہ سے حکمرانی کر رہی ہے ۔ وہاں نریندر مودی کے علاوہ آنندی بین پٹیل اور دوسرے چیف منسٹر بنے ہیں۔ ڈھائی دہوں کے عرصہ میں بی جے پی کو وہاں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کا خیال تک نہیںآیا ۔ اب جبکہ گجرات کی ریاستی حکومت کے تعلق سے عوام میں بے چینی اور ناراضگی کی فضاء محسوس ہو رہی ہے اورحکومت کی کارکردگی سے ریاست کے عوام مطمئن نہیںہیں تو پھر ایک بار پھر نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ریاستی کابینہ کے اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس بات کا جائزہ لے گی کہ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ تمام تفصیلات کا جائزہ لے کر یہ کمیٹی یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کے تعلق سے حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرے گی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کے دستور میں تمام مذاہب کیلئے آزادی فراہم کی گئی ہے ۔ عوام کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے ۔ دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے سبھی اپنے پنے پسندیدہ مذہب کو اختیار کرسکتے ہیں اور یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی باتیں در اصل عوام کو اس دستوری اور بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش ہے ۔ یہ قانون در اصل مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی سمت ایک اور قد ہے ۔ اس کے ذریعہ مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا کرنے کی کوشش کے سواء کچھ نہیں ہے اور اس کے ذریعہ سیاسی مفادات کی تکمیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
مرکزی حکومت ہو یا پھر مختلف ریاستوں میں برسر کار بی جے پی حکومتیں ہوں سبھی اس مہم پر دکھائی دیتی ہیں کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے ۔یکساںسیول کوڈ کانفاذ دستور میں فراہم کردہ حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ اس کے ذریعہ جوآزادی دی گئی ہے اس کو سلب کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کوششوں کا ملک کی ترقی اور عوام کو درپیش مسائل کی یکسوئی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی اپنی حدوں کوپہونچی ہوئی ہے۔ فرقہ وارانہ منافرت کے باوجود لوگ ان مسائل پر توجہ دینے لگے ہیں اور یہی بات بی جے پی کو ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے مقصد سے یہ مسائل اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس طرح کی کوششوں سے بے چینی کی فضاء پیدا کرنے کی بجائے بی جے پی اور اس کی حکومتوں کو عوام کو درپیش مسائل کی یکسوئی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
بی جے پی جواب دے
تلنگانہ میں ٹی آر ایس ارکان اسمبلی کو کروڑہا روپئے کا لالچ دیتے ہوئے خریدنے اور انہیں پارٹی سے انحراف کیلئے اکسانے کا مسئلہ ایسا لگتا ہے کہ طول پکڑتا جا رہا ہے ۔ پولیس کی جانب سے فارم ہاوز پر دھاوا اور تین افراد کی گرفتاری کے بعد اب دارالحکومت دہلی میں بھی عام آدمی پارٹی نے بی جے پی پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے ارکان اسمبلی کو بھی خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ تلنگانہ ارکان اسمبلی کو خریدنے کے مسئلہ پر ٹی آر ایس نے ایک آڈیو کلپ بھی جاری کردیا ہے ۔ دوسری ریاستوں میں بھی بی جے پی پر اس طرح کے الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ اس نے کئی ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ کو انحراف کیلئے اکسایا ہے ۔ انہیں لالچ دی گئی ہے یا پھر انہیں دھمکایا گیا ہے ۔ ساری صورتحال میں بی جے پی پر ہی سبھی گوشوں سے نشانہ لگایا جا رہا ہے ۔ حالانکہ مقامی سطح پر بی جے پی کے قائدین کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جارہی ہے تاہم قومی سطح پر بی جے پی کو سارے الزامات پر جواب دینے اور اپنے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی جس طرح سے مرکز کے اقتدار کا بیجا استعمال کر رہی ہے اس پس منظر میں ان الزامات اور شبہات کو تقویت ہی ملتی ہے ۔ بی جے پی کیلئے ضروری ہے کہ وہ عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دے ۔