یکساں سیول کوڈ کا ہتھکنڈہ

   

ایک ہی جیسے سب کے غم ہیں حال سنانا کیا
ایسی ویسی باتوں کی تفصیل میں جانا کیا
ملک میں جب کبھی انتخابات کا وقت قریب آتا ہے کئی گوشے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں تو فطری بات ہیں لیکن کچھ گوشے ایسے بھی ہیں جو انتخابات سے عین قبل ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرنے کیلئے سرگرم ہوجاتے ہیںاور اشتعال انگیز بیان بازیاں عام ہوجاتی ہیں۔ اب جبکہ ملک میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور پھر آئندہ سال عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ خود بی جے پی کی مرکزی حکومت بھی سیاسی لڑائی کو مذہبی ہتھکنڈوں سے جیتنے کیلئے کمر کسنے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک میں حجاب ‘ حلال ‘ حرام ‘ بیف ‘ تین طلاق ‘ کثرت ازدواج جیسے مسائل کے بعد یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ لا کمیشن کی جانب سے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے تعلق سے عوام کی رائے طلب کی گئی ہے جبکہ اس تعلق سے کمیشن نے اپنا مسودہ پیش نہیں کیا ہے ۔ جب تک لا کمیشن اپنی تجاویز کا مسودہ جاری نہیں کرتا اس وقت تک حقیقی معنوں میں رائے دینا ممکن یا آسان نہیں رہے گا ۔ بی جے پی ہمیشہ ہی انتخابات میں فرقہ وارانہ تعصب کو فروغ دینے کیلئے شہرت رکھتی ہے ۔ کبھی قبرستان ۔ شمشان کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے تو کبھی بیف تو کبھی حجاب کے مسئلہ کو ہوا دی جاتی ہے ۔ بیشتر مواقع پر بی جے پی کو اس ہتھکنڈے کے ذریعہ کامیابی ملی ہے لیکن کچھ مواقع پر اس کی کوششوں کو ملک کے عوام نے مسترد بھی کردیا ہے ۔ جہاں تک یکساں سیول کوڈ کا مسئلہ ہے یہ بھی ایک انتخابی ہتھکنڈہ ہی ہے کیونکہ مرکز میں گذشتہ نو برس سے اقتدار میں رہتے ہوئے بی جے پی نے اس پر توجہ نہیں دی اور اب جبکہ اپوزیشن جماعتیں متحد ہو رہی ہیں اور بی جے پی کے خلاف رائے عامہ بننے لگی ہے ایسے میں بی جے پی نے یکساں سیول کوڈ کو موضوع بحث بنانا شروع کردیا ہے ۔ لا کمیشن کے ذریعہ مسودہ کی تیاری ‘ عوام سے رائے کی طلبی اور پھر پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے کی اطلاعات کے دوران گودی میڈیا اور زر خرید اینکرس کے ذریعہ لا یعنی مباحث کا بھی سلسلہ شروع کروادیا گیا ہے ۔ اس کا اصل مقصد عوام کے ذہنوں کو منتشر کرنا ہے ۔
بی جے پی چاہتی ہے کہ اس مسئلہ کو ہوا دیتے ہوئے بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل کو عوام کے ذہنوں سے محو کروادیا جائے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کو مقامی مسائل پر توجہ دینے سے گریز نے کراری شکست سے دوچار کیا ہے ۔ اس لئے آئندہ اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات کیلئے ابھی سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں شروع کی جاچکی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ اپنی امکانی شکست کو ٹالنے کیلئے انتخابی حربہ کے طور پر اس منصوبے کو عوام میں پیش کیا گیا ہے لیکن موقع کی مناسبت سے اچانک ہی اس پر عمل آوری کیلئے بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے میں اسے محض ایک انتخابی حربہ یا ہتھکنڈہ سمجھتے ہوئے ملک کی اقلیتوں کو بے پرواہ ہونے سے گریز کرنا چاہئے ۔ ایک پہلو اہمیت کا حامل یہ بھی ہے کہ یکساں سیول کوڈ کی مخالفت صرف اقلیتیں یا مسلمان نہیں کر رہے ہیں بلکہ قبائلی اور دیگر طبقات بھی اس کے خلاف ہیں۔ ان کی رائے کو میڈیا اور خاص طور پر گودی میڈیا میں کہیں سے بھی پیش نہیں کیا جا رہا ہے اور صرف یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ صرف اقلیتیں اور مسلمان یکساں سیول کوڈ کے مخالف ہیں۔ اس طرح سے بھی اکثریتی برادری کے ووٹوں کو مجتمع کرنے اور انہیں گمراہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل شروع ہوچکا ہے ۔قبائلی برادری اور دیگر طبقات کے یکساں سیول کوڈ کے تعلق سے جو تحفظات ہیں اور ان کی جو مخالفت ہے اس کو پیش نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کی کسی گوشے سے تشہیر کی جا رہی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی نے اپنے 2014 کے انتخابی منشور میں یکساں سیول کوڈ کا وعدہ کیا تھا لیکن اسی منشور میں سالانہ دو کروڑ نوکریوں کا بھی وعدہ کیا گیا تھا ۔ اس وعدہ کا تو اب کوئی تذکرہ تک نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یکساں سیول کوڈ کو سیاسی روٹیاں سینکنے کیلئے حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس حربہ کو کسی بھی وقت حتمی منصوبہ کی شکل بھی دی جاسکتی ہے ۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں اور سماجی تنظیموں اور اداروں کو اس معاملے میں چوکسی برتنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کی کوششوں سے مرعوب ہونے کی بجائے استقلال کے ساتھ اس منصوبے کی مخالفت دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کی جانی چاہئے ۔