یہودی دنیا بھر میں تعلیمی میدان میں اگے، آخر کیا ہے وجہ؟

,

   

1949ء میں دنیا بھر کے امیر ترین یہودیوں نے مل کر ایک بلین ڈالر جمع کیا تھا، یہودی عبادت گاہ سینی گوگ بنانے کےلیے، کہ ہم ایک ایسی شاندار عبادت گاہ بنائیں گے جو یروشلم میں ہوگی اور وہ دنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہوگی۔ تو ایک سیانے یہودی نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ ایک عرب ڈالر سے عبادت گاہ بنانے کے بجائے ایک تعلیم گاہ تعمیر کیجئے تاکہ لوگ تعلیم کے ذریعے خدا کو پہچان سکیں۔

اور بنانے والوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی اس نے وہاں ایک ایجوکیشن ٹرسٹ تعمیر کیا، کئی لائبریریوں کا قیام کیا، تو اسکا نتیجہ یہ نکلا آج دنیا میں جتنے بھی یہودی ہیں ان میں شرح تعلیم 100 فیصد ہیں۔ یعنی ایک بھی یہودی ان پڑھ یا کم پڑھا لکھا نہیں ہے۔

اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک میں 45 ایسی یونیورسٹیاں ہیں جو عالمی پیمانے پر شمار ہوتی ہیں، اور دنیا کی 500 ٹاپ یونیورسٹی میں ان کا شمار ہوتا ہے، صرف امریکا کے اندر پانچ ہزار سات سو اٹھاون یونیورسٹی ہیں، جاپان کے شہر ٹوکیو میں ایک ہزار سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں، جو عالمی پیمانے میں شمار ہوتی ہے۔ اور ہندوستان میں اٹھ ہزار یونیورسٹیاں ہیں جس میں چار سو ایسی ہیں جو عالمی پیمانے پر مشتمل ہیں، جہاں پر پی ایچ ڈی کی سند دی جاتی ہے۔ اور تمام اسلامی ممالک کو ملا کر یونیورسٹیوں کی تعداد بنتی ہیں پانچ سو، اور پانچ سو میں صرف پچپن ایسی ہیں جو عالمی پیمانے کے مطابق ہیں۔

جہاں تک اعلیٰ تعلیم کا سوال ہے

یہودی 98.2%

عیسائی چالیس فیصد

ہندو گیارہ فیصد

اور مسلمانوں کی دو فیصد ہیں

اس ویڈیو سے پتہ یہی چلتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی کامیابی کےلیے اعلیٰ تعلیم کی فکر کرنی چاہیے، اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عبادت گاہوں پر پیسے خرچ نہ کئے جائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کی بھی فکر کی جائے۔ جو عبادت گاہوں کو چھوڑ کر صرف تعلیم پر پیسے خرچ کرنے کی بات کرتے ہیں اور اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر دوسرے راستے کی بات کرتے ہیں وہ ایک غیر اسلامی سوچ ہے، مسلمانوں کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضے کو دیکھ کر عصری تعلیم میں اتنا ہی اگے بڑھیں جتنا اسلام اجازت دیتا ہے۔