یہ آتے جاتے موسم روپ سروپ بدلتی رتیں اور لڑکیاں

   

یہ آتے جاتے موسم، ُروپ سروپ بدلتی رْتیں پتا نہیں لڑکیوں بالیوں ہی کو کیوں زیادہ متاثر کرتی ہیں کہ ہر موسم سے وابستہ کچھ نہ کچھ رنگ اُن کے چہروں پہ ضرور اُترتے، رویوں، مزاجوں سے بہرطور جھلکتے ہیں۔اِدھر کالی بدری چھائی نہیں، اْدھر دِل چَھتیں ٹاپنے کو مچلنے لگا کہ برکھا، برسات میں تن مَن بھگونا تو گویا لازم ٹھہرا۔ سکھیوں، سہیلیوں کے جْھرمٹ میں ست رنگی اوڑھنیاں، چْنریاں اوڑھے پینگوں کے ہْلارے نہ لیے، تو بھلا ساون بھی کوئی ساون ہوا۔اور پھر برستی بارش کے ساتھ پکوڑے، سموسے، کچوریاں اور چائے تو مشروط ہی ہیں۔ بہار کے رنگ، خوشبوئیں ابھی پوری طرح دھرتی پہ اُتر بھی نہیں پاتے۔کونپلیں، شگوفے گْلوں، پھولوں کے رْوپ میں ٹھیک سے ڈھلے بھی نہیں ہوتے۔ زمیں سبز مخملیں لباس کی تہیں کھول ہی رہی ہوتی ہے کہ نوعْمر بانکیوں سجیلیوں کے چہرے ہی نہیں، ملبوسات، سب رنگ و انداز رنگا رنگ گْلوں، گلابوں کا نظارہ دینے لگتے ہیں۔چہار سْو گویا قوسِ قزح ہی قوسِ قزح بکھری نظر آتی ہے۔موسمِ گرما کے طویل دن بھی اِن ہی کملیوں پر سب سے گراں گزرتے ہیں۔تب ہی ہلکے پْھلکے، دھیمے دھیمے رنگوں کے سوتی پہناوے، بالکل ہلکا میک اَپ، کَس کے بندھی پونیاں، اونچے جْوڑے، کیچرز میں قید زلفیں، آرام دہ نازک نازک چپلیں مَن پسند طرزِ آرائش و زیبائش ٹھہرتا ہے۔‘‘ہاں، تو بات ہو رہی تھی، موسموں کے رنگوں کی لڑکیوں ، بالیوں، الہڑ دوشیزاؤں، کنواری ناریوں کے چہروں، رویّوں بلکہ انگ انگ سے چھلکنے کی۔تو شاید اِس کی ایک بڑی وجہ کچّی عْمر کے جذبات و احساسات، تصورات و خیالات، باتیں حکایتیں بھی ہیں۔وہ بشیر بدر نے کہا تھا ناں کہ’’ پلکیں بھی چمک اْٹھتی ہیں سوتے میںہماری آنکھوں کو ابھی خواب چْھپانے نہیں آتے اُڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میںپھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے۔‘‘ اور سفید رْت میں گلاب ہاتھوں سے سات رنگوں کے خواب چْنتی کپاس چْننے کو آئی لڑکی کا دھیان تھوڑی کپاس پر ہے۔تو بس، کچھ ایسی ہی ہوتی ہیں لڑکیاں۔تب ہی تو رْتوں، موسموں کے بدلنے کی خبر ہواؤں، فضاؤں سے پہلے ان کے رنگ و آہنگ سے ملتی ہے۔