یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا

,

   

یوگی کیمپ میں بغاوت … رام مندر بی جے پی کا ایجنڈہ
کورونا … نریندر مودی کو انسان کی نہیں آمدنی کی فکر

رشیدالدین
بی جے پی چاروں طرف گھوم کر پھر سے ایودھیا پہنچ گئی۔ اترپردیش میں پارٹی کی کشتی غرق ہوتی دکھائی دے رہی ہے ، لہذا بی جے پی ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے مصداق رام مندر کا سہارا لینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اترپردیش پر بی جے پی کو غرور تھا کہ یہاں سے اسمبلی الیکشن میں کامیابی کے ذریعہ دہلی میں تیسری مرتبہ اقتدار کا راستہ ہموار ہوجائے گا ۔ جیسے جیسے چناؤ کی تاریخ قریب آرہی ہے ، یوگی ادتیہ ناتھ حکومت کا مستقبل ڈانواڈول دکھائی دے رہا ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے ہر طرح کے حربے استعمال کئے لیکن کوئی تدبیر اور چال کامیابی کے بجائے الٹی پڑ رہی ہے۔ بی جے پی قیادت نے جب شکست کو استقبال کیلئے کھڑا دیکھ لیا تو دوبارہ ایودھیا کا رخ کرلیا گیا۔ یوگی ادتیہ ناتھ ایودھیا سے اسمبلی الیکشن میں حصہ لیں گے ۔ یوگی یوں تو قانون ساز کونسل کے رکن ہیں لیکن پارٹی کیڈر میں جوش پیدا کرنے اور انتخابی ماحول کو گرم کرنے کیلئے یوگی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اپنے مضبوط قلعہ کو بچانے کیلئے نریندر مودی نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اپنی آبائی ریاست گجرات سے زیادہ مودی نے اترپردیش کا دورہ کیا اور ہر موقع پر ہزاروں کروڑ کی اسکیمات اور پراجکٹس کا اعلان کیا گیا۔ ترقی کو انتخابی ایجنڈہ بنانے کی مودی نے لاکھ کوشش کی لیکن عوام کو بھروسہ کرنے کیلئے زمین پر کچھ تو تبدیلی چاہئے ۔ 4 برس تک ہندوتوا اور نفرت کا پرچار کرنے کے بعد الیکشن سے عین قبل ترقی کا نعرہ عوام کو گالی دینے کے مترادف ہے۔ عوام نے جب ترقی کے نعرہ کو نظر انداز کردیا تو رام مندر کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ بی جے پی کو یقین ہوچکا ہے کہ کٹر ہندوتوا ایجنڈہ کے ذریعہ ہی اترپردیش میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہندوتوا کے چہرہ کے طور پر یوگی ادتیہ ناتھ سے بڑھ کر کوئی اور ہو نہیں سکتا کیونکہ انہوں نے گزشتہ چار برسوں میں اپنی تقاریر میں زہر اگلتے ہوئے سماج کو تقسیم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنوایا۔ یوگی نے جناح کو تقاریر میں اس قدر یاد کیا کہ شائد پاکستان کے قائدین بھی اپنی تقاریر میں اتنی مرتبہ نام نہ لیتے ہوں گے۔ یوگی نے الیکشن کو 80 فیصد اور 20 فیصد کے درمیان مقابلہ قرار دیا ۔ ظاہر ہے کہ 80 فیصد ہندو اور 20 فیصد مسلمان ۔ الغرض بی جے پی کے لئے یوگی سے بڑھ کر کوئی اور چہرہ ہندوتوا کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ کو ایودھیا سے میدان میں اتارا جارہا ہے۔ یوں تو گودی میڈیا کے ذریعہ روزانہ فرضی سروے کے ذریعہ بی جے پی کو سبقت دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن گودی میڈیا کے چاٹوکار اینکرس کی زبان سے یوگی کی مداح سرائی نے عوام کی ناراضگی میں اضافہ کردیا ہے۔ یو پی کے تخت و تاج کی نیلامی سے بچنے کیلئے اعلیٰ قیادت نے یوگی ادتیہ ناتھ کو ایودھیا سے میدان میں اتارنے کی ٹھان لی ہے تاکہ رام مندر کی یاد تازہ ہوجائے اور رام کا نعرہ لگاتے ہوئے ہندو ووٹ متحد کئے جاسکیں۔ عوام کی نفسیات ایسی ہے کہ دیگر مسائل سے زیادہ مذہبی اشوز پر فوری جمع ہوجاتے ہیں۔ اسی کمزوری کا بی جے پی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن جب چڑیاں چک گئیں کھیت تو اس کے بعد کوئی فائدہ نہیں ۔ یوگی نے اپنے آبائی ضلع گورکھپور کے بعد سب سے زیادہ دورہ ایودھیا کا کیا ہے۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ اکھلیش یادو کے او بی سی طبقات کے اتحاد کی مہم کا جواب رام مندر کے ذریعہ دیا جاسکتا ہے ۔ رام مندر کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور تعمیری کاموں کے آغاز کے بعد سے یہ نان اشو بن چکا ہے ۔ بی جے پی کے پاس دراصل ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کیلئے کوئی مسئلہ یا تنازعہ نہیں ہے، لہذا گھسے پٹے مسئلہ کو دوبارہ ہوا دینے کی کوشش کی جائے گی۔ نریندر مودی سے کوئی تو پوچھے کہ ہزاروں کروڑ کے ان پراجکٹس کا کیا ہوا جن کا الیکشن سے عین قبل شیلا نیاس کیا گیا۔ رام مندر کا مسئلہ اب بے جان ہوچکا ہے اور عوام کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ عدالت کے فیصلہ کے تحت تعمیری کام جاری ہے تو پھر تنازعہ کس بات کا ۔ اگر مندر کی تعمیر کی مخالفت کی جاتی تو گنجائش باقی تھی کہ ہندوؤں کو متحد کیا جائے ۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد مسلمانوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر کا دامن تھام لیا جس سے تنازعہ از خود ختم ہوگیا۔ تعمیری کاموں کو کارنامہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ گزشتہ 10 برسوں میں بی جے پی اور سنگھ پریوار نے ہندوؤں کو مشتعل کرنے کے لئے ترکش کے تمام تیروں کا استعمال کرلیا ہے اور ترکش خالی ہوچکا ہے ۔ تیر تو سارے ختم ہوگئے صرف کمان باقی ہے۔ چلائے ہوئے تیروں میں سے رام مندر کے تیر کو اٹھاکر دوبارہ نشانہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوشش رائیگاں ثابت ہوگی۔ علاقوں اور عمارتوں کے مسلم ناموں کی تبدیلی ، مسلم قائدین ، تنظیموں اور دینی مدارس کے خلاف کارروائی حتیٰ کہ مذہبی شخصیتوں کو بھی بخشا نہیں گیا ۔ ان کارروائیوں کا مقصد مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنا اور ہندوؤں میں مسلمانوں کے بارے میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ نریندر مودی اترپردیش کی سڑکوں پر بھلے ہی یوگی ادتیہ ناتھ کے ساتھ چہل قدمی کرلیں اور کاندھے پر ہاتھ رکھ کر تصویر کھچوالیں لیکن عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہی شخص کامیاب حکمراں بن سکتا ہے جو گھر دار اور بال بچے والا ہو۔ جو اپنا گھر کامیابی سے سنبھال لے وہ کوئی بھی ادارہ اور حکومت بھی چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ مودی اور یوگی گھر دار اور بال بچے کی نعمت سے محروم ہیں اور دونوں حکومتوں کا کیا حال ہے ، عوام بخوبی واقف ہیں۔ دونوں نے یو پی اور دہلی کا برا حال کر رکھا ہے ۔ رام مندر کے مسئلہ کو تازہ رکھنے کیلئے حال ہی میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے چیف منسٹرس نے ایودھیا میں جمع ہوکر مندر کے درشن کئے تھے ۔ اترپردیش کے انتخابی موضوعات میں لاء اینڈ آرڈر کی ابتر صورتحال ، کورونا کی دونوں لہروں کے درمیان لاکھوں افراد کی روزگار سے محرومی ، غریب اور متوسط طبقات کے معاشی مسائل شامل ہیں۔ صحت اور روزی روٹی کو چھوڑ کر کسی بھی اشتعال انگیزی کے ایجنڈہ کو عوام کو قبول نہیں کریں گے۔ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح اترپردیش کو بھی کورونا کی تیسری لہر کا سامنا ہے اور الیکشن کمیشن نے ریالیوں اور جلسوں پر پابندی عائد کردی ۔ کورونا سے نمٹنے کے معاملہ میں نریندر مودی کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چیف منسٹرس کے ساتھ اجلاس میں انہوں نے عوام کی زندگی بچانے سے زیادہ خزانہ کو کم سے کم نقصانات کا مشورہ دیا ہے۔پہلی لہر کے وقت مودی نے جان ہے تو جہان ہے کا نعرہ دیا تھا لیکن آج وہ معیشت کو بچانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت بہتر علاج کی سہولتوں پر توجہ مرکوز کرے کیونکہ ماہرین نے آئندہ برسوں میں کورونا کے نئے ویرینٹس کے خطرہ سے آگاہ کیا ہے۔ وزیراعظم صرف اعلانات اور مشوروں تک محدود ہوچکے ہیں۔ ریاستوں کو تحدیدات کا اختیار دیتے ہوئے مودی نے اپنی ذمہ داری سے دامن بچانے کی کوشش کی ہے۔ خزانہ تو اسی وقت پر ہوگا جب عوام صحتمند ہوں گے۔
الیکشن سے عین قبل یوگی ادتیہ ناتھ کیمپ میں بغاوت ہوچکی ہے اور روزانہ کیمپ سے وزراء اور ارکان اسمبلی کے فرار ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ روزانہ ایک وزیر اور ارکان اسمبلی یوگی کا ساتھ چھوڑ کر اکھلیش یادو کی سیکل پر سوار ہورہے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ جب چوہے کود کر بھاگنے لگیں تو سمجھ لیں کہ جہاز ڈوبنے والا ہے۔ کچھ یہی حال اترپردیش میں بی جے پی کی کشتی کا ہوچکا ہے۔ مودی اور یوگی کی گرفت کمزور ہونے لگی اور ہوا کے رخ کو دیکھ کر کل کے قریبی ساتھی ساتھ چھوڑ کر چلے گئے ۔ یوگی اس وقت دہلی میں مودی اور امیت شاہ کے ساتھ اجلاس کر رہے تھے، اسی وقت اترپردیش میں گھر چھوڑنے کی مہم شروع ہوگئی ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوگی کے غرور اور تکبر کا جواب دینے کیلئے کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے قائدین سماج وادی پارٹی کا رخ کر رہے ہیں۔ ایک وزیر تو ایسے ہیں جنہیں سیاسی حلقوں میں محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کہا جاتا ہے ۔ بی ایس پی سے وہ 2017 ء میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا تھا۔ انہوں نے اب بی جے پی چھوڑ کر سماج وادی پارٹی کا پرچم تھام لیا تو سیاسی حلقے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ آئندہ حکومت اکھلیش یادو کی ہوسکتی ہے ۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے نریندر مودی کی سرپرستی میں من مانی فیصلے کرتے ہوئے کمزور طبقات کو نشانہ بنایا تھا ۔ انہیں صرف مودی کو خوش کرنے کی فکر تھی۔ آخرکار گرو اور چیلہ دونوں اترپردیش میں بی جے پی کے لئے آئرن لیگ ثابت ہوسکتے ہیں۔ مودی اور یوگی میں عوام کیلئے کوئی کشش باقی نہیں رہی اور عوام تبدیلی کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف کانگریس کی پرینکا گاندھی نے اترپردیش میں پارٹی کی عظمت رفتہ بحال کرنے کیلئے ساری طاقت جھونک دی ہے۔ خاندانی بیاک گراؤنڈ اور اندرا گاندھی کی شبیہہ کے ساتھ پرینکا گاندھی خواتین میں تیزی سے مقبول ہورہی ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ اترپردیش میں کانگریس کا موقف قابل لحاظ حد تک بہتر ہوگا اور معلق اسمبلی کی صورت میں پرینکا گاندھی بادشاہ گر کے موقف میں ہوسکتی ہیں۔ اگر اکھلیش یادو کو تشکیل حکومت کے لئے ارکان کی تعداد کم پڑجائے تو کانگریس کی تائید سے مخلوط حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی انتخابی مراحل 7 ہیں اور ہر مرحلہ میں عوام کا رجحان کیا رہے گا ، اس بارے میں پیش قیاسی کرنا آسان نہیں۔ یوگی حکومت کی موجو دہ حالت پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا