یہ بزدلی کی سیاست ہے اِس صدی کا کمال

,

   

پہلگام حملہ …دہشت گردی کے خلاف کارروائی آخر کب؟
طبقاتی مردم شماری …راہول گاندھی کے نظریہ کی جیت

رشیدالدین
’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘۔ بی جے پی نے اِس نعرے کے ذریعہ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ نریندر مودی اگر چاہیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ اِس نعرے سے بی جے پی کو سیاسی فائدہ بھی حاصل ہوا۔ یوں تو کئی معاملات میں بی جے پی کا یہ نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا لیکن دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے معاملہ میں یہ نعرہ ’’مودی ہے تو ناممکن ہے‘‘ میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اپوزیشن میں رہ کر نریندر مودی نے ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت سے دہشت گرد واقعات کے سلسلہ میں جو سوالات کئے تھے، آج وہی سوالات اُن کا تعاقب کررہے ہیں۔ گزشتہ 11 برسوں میں مودی دور حکومت میں دہشت گردی کے جو واقعات بھی پیش آئے چاہے وہ پاکستان کی جانب سے ہوں یا پھر چین، اِن دونوں معاملات میں مودی جوابی کارروائی میں ناکام رہے۔ پہلگام میں 22 اپریل کو دہشت گرد حملہ میں 26 بے قصور سیاحوں اور ایک کشمیری نوجوان کی موت واقع ہوئی۔ واقعہ کے خلاف ملک کے عوام میں سخت برہمی ہے اور 140 کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے والی سیاسی پارٹیوں نے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر حکومت ہند کی جانب سے کسی بھی جوابی کارروائی کی تائید کا اعلان کیا۔ نریندر مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف کئی پابندیوں کا اعلان کیا اور پھر مودی نے دہشت گرد اور اُن کی سرپرستی کرنے والوں کو مٹی میں ملادینے کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں اعلیٰ سطح کے کئی اجلاس بھی ہوئے جن میں ہندوستانی فوج کے تینوں شعبہ جات آرمی، بحریہ اور فضائیہ کو مکمل آزادی دی گئی کہ وہ دشمن کے خلاف جب چاہیں اور جس طرح چاہیں کارروائی کرسکتے ہیں۔ پہلگام واقعہ کو 10 دن سے زائد کا وقت ہوچکا ہے لیکن عوام کو ابھی بھی ہندوستان کی کارروائی کا انتظار ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستانی افواج دشمن کو سبق سکھانے کی طاقت اور اہلیت نہیں رکھتے ہیں لیکن اُنھیں مضبوط اور غیرمتزلزل سیاسی فیصلہ کا شاید انتظار ہے۔ جوابی کارروائی کے بارے میں عوام کے صبر کا شاید مودی حکومت امتحان لے رہی ہے۔ اِسی دوران جوابی کارروائی کے سلسلہ میں ہندوستان کو عالمی تائید بھی اُس طرح حاصل نہیں ہوئی جس طرح کہ ضرورت تھی۔ اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کو جنگ جیسی صورتحال سے گریز کا مشورہ دیا۔ امریکہ اور یوروپی یونین نے بھی مذاکرات کے ذریعہ تنازعہ کا حل تلاش کرنے کی صلاح دی۔ سعودی عرب، قطر اور کویت جیسے اہم عرب ممالک نے بھی کشیدگی کم کرنے مذاکرات کا مشورہ دیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گرد کارروائی کے خلاف جوابی حملہ ہندوستان کا حق ہے اور اگر عالمی دباؤ کے تحت خاموشی اختیار کرلی گئی تو مودی حکومت کمزور ثابت ہوگی۔ امریکہ جو ہندوستان کو مذاکرات کا مشورہ دے رہا ہے اُس نے عراق میں صدام حسین کو بیدخل کرنے سے قبل مذاکرات کیوں نہیں کئے تھے؟ عراق میں تباہی کے بعد امریکہ کو تسلیم کرنا پڑا کہ صدام حسین کے پاس تباہی کے ہتھیار نہیں تھے جس کا الزام امریکہ نے عائد کیا تھا۔ ایسے میں عراق کی تباہی پر امریکہ کو کیا سزا دی گئی؟ امریکہ نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مکمل حمایت کی لہذا اُسے ہندوستان کو درس دینے کا اختیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کا جہاں تک سوال ہے وہ دنیا میں ایک بھی جنگ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوا اور یہ امریکہ کے اشاروں پر کام کرنے والا ادارہ بن چکا ہے۔ ہندوستان کو کسی کے دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ وہ ایک خود مختار اور آزاد مملکت ہے جو اپنے دفاع کے لئے فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کے خلاف نریندر مودی کے تیور 2014 ء سے قبل جارحانہ تھے لیکن اقتدار میں فائز ہوتے ہی وہ اچانک تبدیل ہوگئے اور نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد دینے بن بلائے مہمان بن کر لاہور چلے گئے تھے۔ گزشتہ 11 برسوں میں دہشت گرد کارروائیوں کا جواب دینے کے معاملہ میں مودی حکومت کا ٹریک ریکارڈ حوصلہ افزاء نہیں رہا۔ پٹھان کورٹ، یوری اور پھر پلوامہ دہشت گرد حملوں کے بعد مودی حکومت نے صرف جذباتی بیانات اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پہلگام حملہ کے بعد نریندر مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے ہندوستان واپس ہوئے لیکن کشمیر کا دورہ نہیں کیا بلکہ دوسرے دن انتخابی ریالی سے خطاب کرنے بہار پہونچ گئے۔ مودی نے ریالی کے ذریعہ دہشت گردوں اور اُن کے آقاؤں کو مٹی میں ملادینے کی دھمکی دی۔ عوام کو توقع تھی کہ شاید قوم سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی بھروسہ دلائیں گے لیکن بی جے پی کے پاس معصوم شہریوں کی ہلاکت سے زیادہ انتخابی ریالی کی اہمیت ہے۔ پٹھان کورٹ واقعہ کے بعد بھی نریندر مودی نے کرناٹک کے میسور میں ریالی سے خطاب کرتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ 2019 ء میں پلوامہ میں فوجی قافلہ پر دہشت گرد حملہ میں 40 سے زائد جوان شہید ہوئے تھے اُس وقت نریندر مودی کی تقریر آج بھی سوشل میڈیا میں گشت کررہی ہے۔ پلوامہ اور پہلگام حملوں کے بعد وزیراعظم کی تقریر میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اسکرپٹ رائٹر وہی ہے جس نے پلوامہ کے وقت تقریر تیار کی تھی۔ پلوامہ کے بعد بھی فوج کو مکمل آزادی (فری ہینڈ) دینے کی بات کی گئی اور پہلگام کے بعد بھی اِسی طرح کا اعلان ہوا لیکن دونوں واقعات میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کو فری ہینڈ دیئے جانے کی مدت کیا ہے۔ کب فری ہینڈ دیا گیا اور کب واپس لے لیا گیا اِس کی وضاحت ہونی چاہئے۔ وزیرداخلہ امیت شاہ پہلگام حملہ کے بعد کشمیر گئے لیکن دہلی واپسی کے بعد کچھ نہیں کہا۔ واقعہ کے 9 دن بعد دہلی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو چُن چُن کر جواب دینے کی دھمکی دی۔ مبصرین کے مطابق عام جلسوں میں دھمکی آمیز بیانات کا مقصد عوام کے غصہ کو کم کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
ملک کی سالمیت سے زیادہ انتخابی سیاست نے ترجیح حاصل کرلی ہے۔ پہلگام دہشت گرد حملہ کے زخم ابھی بھری نہیں تھے لیکن مودی حکومت نے اُس پر طبقاتی مردم شماری کا سیاسی مرہم لگادیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک اقتدار ہے صاحب اقتدار کے پاس الفاظ کی کمی نہیں ہوتی اور الفاظ بھی اُس وقت تک ساتھ دیتے ہیں جب تک اقتدار باقی رہے۔ جس دن نئی دہلی میں کابینہ کا اجلاس طلب کیا گیا اُس وقت گودی میڈیا نے اعلان کردیا کہ آج ہندوستان کی کابینہ جوابی کارروائی کا اہم فیصلہ کرے گی۔ یہ اطلاعات گشت کرنے لگیں کہ وزیراعظم خود قوم سے خطاب کریں گے۔ نریندر مودی نے نوٹ بندی اور پھر کورونا وباء کے دوران بارہا قوم سے خطاب کیا لیکن ملک کی سالمیت اور 140 کروڑ عوام کی زندگی سے متعلق معاملہ میں وہ قوم کا سامنا کرنے سے شاید شرمارہے ہیں۔ وہ کیا صورت لے کر قوم کا سامنا کریں گے جبکہ اُنھوں نے گزشتہ 11 برسوں میں ایک بھی جوابی کارروائی انجام نہیں دی۔ کابینہ کا اجلاس جیسے ہی ختم ہوا، دُنیا کو انتظار تھا کہ مودی کوئی اہم اعلان کریں گے لیکن ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ کے مصداق مرکزی کابینہ نے ملک میں طبقاتی مردم شماری کا نیا شوشہ چھوڑ دیا۔ طبقاتی مردم شماری کا فیصلہ یقینا کانگریس قائد راہول گاندھی کے نظریہ کی کامیابی ہے جنھوں نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران ملک میں طبقاتی زمرہ بندی کی تحریک شروع کی تھی۔ نریندر مودی حکومت نے پہلگام بدلہ کی کارروائی کے بجائے بہار کے چناؤ کو اہمیت دی ہے۔ چناوی سیاست کیسے کیسے گُل کھلاتی ہے اِس کا اظہار طبقاتی مردم شماری کے فیصلہ سے ہوتا ہے۔ بی جے پی کو بہار میں کسی بھی صورت میں الیکشن جیتنا ہے اگر بہار ہاتھ سے نکل گیا تو اترپردیش، بنگال، آسام حتیٰ کہ گجرات میں بھی مسائل پیدا ہوں گے۔ ایسے وقت جبکہ پہلگام واقعہ سے زخمی ہندوستانی سماج بدلہ کی کارروائی کا انتظار کررہا تھا، مودی حکومت نے زخموں پر سیاست کا مرہم رکھ دیا۔ مودی نے یہ نہیں سوچا کہ طبقاتی مردم شماری کا فیصلہ کانگریس کے حق میں جائے گا۔ اُنھیں تو کسی بھی صورت میں بہار کے الیکشن میں پسماندہ طبقات کی تائید حاصل کرنا تھا۔ بی جے پی نے طبقاتی مردم شماری کا مطالبہ کرنے والوں کو ’’اربن نکسل‘‘ قرار دیا تھا۔ پہلگام دہشت گرد حملہ سے عوام کی توجہ ہٹانے اور ناراضگی کے جذبہ کو کم کرنے کیلئے مودی حکومت نے سیاسی بازیگری کے تحت طبقاتی مردم شماری کا نیا شوشہ چھوڑ دیا۔ کانگریس سے سیاسی ہزیمت سے زیادہ عوامی ناراضگی مودی حکومت کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی تھی لہذا راہول گاندھی کے مطالبہ کو تسلیم کرلیا گیا۔ کل تک طبقاتی مردم شماری کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر جو بھی ٹوئٹ اور تبصرے کئے گئے تھے، بی جے پی قائدین اُنھیں ڈیلیٹ کرنے میں مصروف ہے اور طبقاتی مردم شماری کے فوائد عوام میں بیان کئے جارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کل تک مذہبی سیاست کرنے والی بی جے پی کو بہار میں شکست کا خوف ستارہا ہے۔ طبقاتی مردم شماری سے ازخود بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی نفی ہوگی۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف سنگھ پریوار نے جو مہم چھیڑ رکھی تھی، وہ طبقاتی مردم شماری کے فیصلہ سے کمزور ہوجائے گی۔ محض الیکشن میں کامیابی کے لئے طبقاتی مردم شماری کے اعلان کے بجائے بی جے پی کو مردم شماری کی تکمیل کی مدت کا اعلان کرنا چاہئے۔ 2029ء عام انتخابات تک طبقاتی مردم شماری کی تکمیل کا شیڈول جاری کیا جائے تاکہ تمام طبقات کی حقیقی صورتحال اور آبادی کا پتہ چلایا جاسکے۔ پہلگام دہشت گرد حملہ کے پس منظر میں طبقاتی مردم شماری کا اعلان اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس پارٹی کے لئے امتحان سے کم نہیں۔ کیا کانگریس پارٹی طبقاتی مردم شماری کا استقبال کرتے ہوئے پہلگام کے زخموں کو بھول جائے گی؟ راہول گاندھی نے واضح کردیا ہے کہ طبقاتی مردم شماری کا فیصلہ اور پہلگام حملہ کے ذمہ داروں کو سبق سکھانا دو علیحدہ اُمور ہیں۔ کانگریس کے دیرینہ مطالبہ کی تکمیل اور اہم کامیابی پر پہلگام کے معصوم مہلوکین اور اُن کے خاندانوں کے آنسوؤں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ معراج فیض آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ بزدلی کی سیاست ہے اِس صدی کا کمال
کہ تیر چلتے رہیں اور کماں دکھائی نہ دے