یہ جرم کم ہے کہ سچائی کا بھرم رکھا

,

   

راہول گاندھی کو سزا … انتقامی سیاست کی انتہا
مسلمان ۔ حب الوطنی سرٹیفکٹ کی ضرورت نہیں

رشیدالدین
’’انتقامی سیاست کا عروج‘‘ یوں تو سیاسی زندگی میں حریفوں کے تعلق سے انتقام کا جذبہ ہونا فطری ہے لیکن انتقام کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ہر برسر اقتدار پارٹی اپوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے اقتدار کا بے جا استعمال کرتی ہے ۔ سرکاری اداروں یا پھر تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپوزیشن کے تعاقب میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی کے معاملہ میں ملک کی کوئی بھی بڑی پارٹی دودھ کی دھلی نہیں ہے۔ پارٹی برسر اقتدار رہے تو انتقامی اور بدلہ کا جذبہ کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اگر کوئی پارٹی رولنگ پارٹی کی حلیف ہو تب بھی مخالفین کی خیر نہیں۔ آزادی کے بعد سے سیاسی سطح پر بدلہ اور انتقامی کارروائیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن سابق میں انتقامی کارروائیوں کا ایک معیار تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معیارات گھٹنے لگے اور 2014 ء کے بعد تمام حدود کو پھلانگ کر سیاسی حریفوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شہری اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ موجودہ بی جے پی حکومت چاہے وہ مرکزی ہو یا ریاستوں میں، وہ تمام اخلاقی اور انسانیت کے اصولوں کو یکسر فراموش کرتے ہوئے گھٹیا اور نچلی سطح کی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ اقتدار کی خواہش ہر کسی کو ہوتی ہے لیکن نریندر مودی حکومت نے دستوری اور قانونی اداروں کو بھی عملاً یرغمال بنالیا ہے۔ مقننہ ، عاملہ اور میڈیا کے بعد عوام کو عدلیہ سے امید تھی لیکن جوڈیشل آفیسرس اور بعض ججس بھی دباؤ یا پھر لالچ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ بابری مسجد اراضی مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ نے عوامی اعتماد کو متزلزل کردیا ہے۔ گجرات فسادات ، احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی درخواست کا مسترد ہونا ، نوٹ بندی اور طلاق ثلاثہ کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں نے مودی حکومت کے موقف کو مستحکم کیا ہے۔ حالیہ عرصہ میں سپریم کورٹ نے اپنا موقف کیا سخت کرلیا کہ مرکز نے ججس کے تقررات کیلئے کالجیم کی سفارشات سے اختلاف شروع کردیا ۔ سپریم کورٹ اور مرکز کا یہ ٹکراؤ دیرپا ثابت نہیں ہوگا کیونکہ بیشتر ججس کو ریٹائرمنٹ کے بعد اہم عہدوں کی خواہش ہوتی ہے ۔ بہت کم ججس ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اصولوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ بابری مسجد مقدمہ کے تین ججس کو مندر کے حق میں فیصلہ سنانے کا انعام مل چکا ہے۔ بی جے پی کی مخالف کوئی پارٹی شائد ہی عتاب سے محفوظ رہی ہو۔ ہر مخالف کے خلاف سی بی آئی ، انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کو شکاری جانوروں کی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے دھاوؤں کے بعد دفاتر کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ ہاں اگر الزامات ، مقدمات اور دھاوؤں سے بچنا ہو تو بی جے پی کی واشنگ مشین سے گزرنا ہوگا جس میں ’’واشنگ پاؤڈر نرما‘‘ سے دھلائی کے بعد کلین چٹ مل جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ واشنگ پاؤڈر نرسما سے دھلائی کیلئے بی جے پی میں شامل ہونا ضروری ہے۔ کئی مثالیں موجود ہیں جن میں بی جے پی میں شمولیت کے ساتھ ہی قائدین کے تمام پاپ دھل گئے ۔ گاندھی پریوار بھی مودی حکومت کی ہراسانی سے بچ نہیں سکا۔ نیشنل ہیرالڈ معاملہ میں سونیا گاندھی کو ای ڈی دفتر طلب کیا گیا۔ راہول گاندھی ، پرینکا گاندھی اور کانگریس کے سرکردہ قائدین کسی نہ کسی معاملہ میں تحقیقاتی ایجنسیوں کے نشانہ پر ہیں۔ گزشتہ دنوں راہول گاندھی کو ہتک عزت کے ایک مقدمہ میں گجرات کے شہر سورت کی عدالت نے دو سال قید کی سزا سنائی ۔ اگرچہ راہول گاندھی کو اپیل کیلئے ضمانت کے ساتھ 30 دن کی مہلت دی گئی لیکن نریندر مودی حکومت نے لوک سبھا کی رکنیت سے نااہل قرار دینے کی کارروائی کرتے ہوئے انتقامی جذبہ کا ثبوت دیا ہے۔ ضلع عدالت نے 30 دن کی مہلت دی جس کا مطلب صاف ہے کہ فیصلہ پر عمل آوری نہیں ہوگی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ضلع جج اور بی جے پی کی مبینہ طور پر ملی بھگت تھی اور اسی لئے جج نے دو سال کی سزا دی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق اگر کسی عوامی نمائندہ کو دو سال کی سزا ہوتی ہے تو اس کی اسمبلی اور پارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہوجائے گی۔ اترپردیش میں اعظم خاں اور ان کے فرزند کے ساتھ یہی کھیل کھیلا گیا ۔ نچلی عدالت سے سزا کا فیصلہ حاصل کرتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت ختم کردی گئی ۔ راہول گاندھی کے خلاف لوک سبھا سکریٹریٹ کا فیصلہ ملک کی سیاست میں اہم تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ راہول گاندھی کا قصور بس اتنا ہے کہ اپریل 2019 ء میں کرناٹک کی انتخابی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے سر نیم مودی کا استعمال کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ تمام چوروں کے نام کے ساتھ مودی کیوں جڑا ہوتا ہے ۔ چاہے وہ نیرو مودی ، للت مودی اور نریندر مودی کیوں نہ ہوں ۔ مقدمہ کے دوران راہول گاندھی نے معذرت خواہی سے انکار کرتے ہوئے سچائی اور حق کیلئے جان کی قربانی دینے کا عزم کیا تھا ۔ بی جے پی قائدین نے اٹلی کے حوالے سے سونیاگاندھی کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا لیکن یہاں کارروائی کا مقصد راہول گاندھی کے حوصلوں کو پست کرنا ہے ۔ مودی کی توہین ہو اور نریندر مودی کی آبائی ریاست کے جج راہول گاندھی کو کلین چٹ دیں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ جج نے دو سال کی سزا کا اعلان کرتے ہوئے لوک سبھا کی رکنیت کو ختم کرنے کا ہتھیار بی جے پی کے حوالے کردیا۔ عدلیہ کے اس طرح کے فیصلوں سے عوام کا شک اور اندیشہ فطری رہے گا۔
راہول گاندھی سے بی جے پی کے خوف کا نتیجہ ہے کہ عدالت کے فیصلے کے 24 گھنٹوں میں پارلیمنٹ سکریٹریٹ کے ذریعہ رکنیت سے نااہل قرار دینے کی کارروائی کی گئی ۔ اپوزیشن کے خلاف بی جے پی قائدین کچھ بھی کہہ لیں اظہار خیال کی آزادی میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ اگر کوئی مودی کا نام لیں تو وہ ہتک عزت کا معاملہ بن جاتا ہے ۔ جمہوریت میں وزیراعظم تنقید سے بالاتر نہیں ہے۔ دوہرے معیارات کا شکار ملک کی عدالتیں کب تک رہیں گی۔ الزامات اور جوابی الزامات جمہوری سیاست کی خوبی اور صحت مند سیاست کی علامت ہیں۔ ان کے بارے میں فیصلہ عوامی عدالت میں ہوتا ہے۔ نہ کے ججس کی عدالتوں میں ۔ بی جے پی کی نفرت کی سیاست کے خلاف کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ راہول گاندھی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے ۔ بی جے پی دراصل بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر عدلیہ کا استعمال کر رہی ہے۔ سونیا گاندھی کی علالت کے بعد سنگھ پریوار اور بی جے پی کو خطرہ صرف راہول اور پرینکا سے ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے بی جے پی اور سنگھ پریوار نے کیا کچھ نہیں کہا۔ اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد کی گئی ۔ یہاں تک کہا گیا کہ مسلمان بھلے ہی دہشت گرد نہ ہوں لیکن گرفتار کئے جانے والے دہشت گرد مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ اس طرح کے بیانات کو اظہار خیال کی آزادی کہا گیاجبکہ مسلمان اور اسلام کا نام لینے پر کسی نے مقدمہ درج نہیں کرایا۔ راہول گاندھی کی لوک سبھا کی رکنیت ختم کرتے ہوئے بی جے پی نے انہیں عوام کے درمیان پہنچا دیا ہے۔ اب وہ اپنی بات عوام کے درمیان رکھ سکتے ہیں اور وہ ایک مظلوم کے طور پر ملک بھر میں بی جے پی کے خلاف مہم چلائیں گے ۔ دوسری طرف آسام کے چیف منسٹر ہیمنت بسوا شرما کی دینی مدارس کے خلاف شرانگیزی مسلسل جاری ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آسام میں 600 مدارس بند کئے جاچکے ہیں اور باقی مدارس کو بھی بند کردیا جائے گا۔ آسام میں مدارس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہیمنت بسوا شرما کی شر انگیزی پر آسام سے تعلق رکھنے والے مسلم رہنما خاموش ہیں۔ شائد وہ رمضان المبارک کے پیش نظر پرفیوم کے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔ دینی مدارس اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم کا خاتمہ صرف بیان بازی سے ممکن نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو جمہوری انداز میں احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ ہندوستان کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی جاگیر نہیں بلکہ مسلمانوں کی قربانیاں بھی جدوجہد آز ادی میں دوسروں کے برابر رہیں لیکن افسوس کہ مسلم مجاہدین آزادی کی قربانیوں کی تاریخ کو فراموش کردیا گیا۔ جب سے بی جے پی کی سرپرستی میں جارحانہ فرقہ پرست تنظیمیں متحرک ہوچکی ہیں، مسلم مذہبی جماعتیں بھی اپنی حب الوطنی کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مسلمانوں کو حب الوطنی ثابت کرنے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں ہے کیونکہ ملک کا ہر گوشہ مسلمانوں کے خون کا گواہ ہے ۔ مسلمانوں کی حب الوطنی پیدائش سے لے کر تدفین تک ہے۔ مرنے کے بعد بھی وہ دو گز زمین کا مالک ہوتا ہے اور روز قیامت ہندوستان کی سر زمین سے ہی اٹھیں گے۔ مسلمانوں کو کسی کے سرٹیفکٹ کی ضرورت نہیں ہے اور ان کے بغیر ملک کا تصور ادھورا ہے۔ مسلمانوں نے 800 برس تک ملک پر حکمرانی کی لیکن کبھی بھی شہروں کے نام تبدیل نہیں کئے۔ ٹیپو سلطان نے سری رنگا پٹنم کا نام برقرار رکھتے ہوئے مذہبی رواداری کی مثال قائم کی ہے۔ راہول گاندھی کے خلاف کارروائی پر ساقی امروہی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
یہ جرم کم ہے کہ سچائی کا بھرم رکھا
سزا تو ہونی تھی مجھ کو مرے بیان کے بعد