نہیں ہیں نشانے پہ گھر جو ہمارے
تو تیروں کی بارش اِدھر کس لئے ہے
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے ایک بیان سے ملک بھر میں نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ موہن بھاگوت نے ناگپور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی فرد اگر 75 برس کی عمر کو پہونچ جاتا ہے تو اسے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتے ہوئے دوسروں کیلئے موقع فراہم کرنا چاہئے ۔ موہن بھاگوت کے یہ ریمارکس ملک بھر میں مباحث کی وجہ بن گئے ہیں کیونکہ جاریہ سال خود موہن بھاگوت اور وزیر اعظم نریندر مودی 75 سال عمر کو پہونچنے والے ہیں۔ بی جے پی میں جس وقت سے نریندرمودی کا دبدبہ قائم ہوا ہے اس وقت سے بی جے پی کو بلندیوں تک پہونچانے میں سرگرم رول ادا کرنے والے قائدین ایل کے اڈوانی ‘ مرلی منوہر جوشی اور جسونت سنگھ کو بھی 75 سال عمر کو پہونچنے پر سرگرم سیاست سے بتدریج دور کردیا گیا اور انہیں مارگ درشک منڈل بھیج دیا گیا ۔ اس وقت سے یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ بی جے پی میں تمام قائدین کیلئے ایک اصول پر عمل کیا جا رہا ہے اور اب جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ موہن بھاگوت خود بھی 75 سال عمر کو پہونچنے والے ہیں تو نئی بحث شروع ہوگئی ہے ۔ دبے دبے الفاظ میں یہ بحث گذشتہ لوک سبھا انتخابات سے ہی شروع ہوگئی تھی اور مختلف تبصرے اس تعلق سے کئے جا رہے تھے تاہم اب آر ایس ایس سربراہ کی جانب سے کئے گئے بیان کے بعد قیاس آرائیوں میں تیزی پیدا ہوگئی ہے ۔ اس مسئلہ پر اپوزیشن کی جانب سے موہن بھاگوت اور نریندر مودی کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جس اصول کی بات کرتے ہوئے دوسرے قائدین کو مارگ درشک منڈل میں بھیج دیا گیا تھا کیا وہی اصول خود بھاگوت اور مودی پر بھی لاگو کیا جائیگا ؟ ۔ اپوزیشن قائدین کی جانب سے اس پر اندیشوں کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے اور سوشیل میڈیا پر بھی صارفین کی جانب سے اظہار خیال کیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ ماضی میںایسے کسی بھی اندیشے کو مسترد کرچکے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کے دستور میں ایسا کوئی لزوم موجود نہیں ہے کہ کوئی فرد اگر 75 سال عمر کو پہونچے تو اسے سرگرم سیاست یا عوامی زندگی سے دوری اختیار کرلینی چاہئے ۔
حالانکہ یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ نریندر مودی سرگرم سیاست سے دور نہیں ہونگے اور نہ ہی وہ مارگ درشک منڈل میں داخلہ حاصل کریں گے ۔ تاہم یہ بات بھی ضرور ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس مسئلہ پر وزیر اعظم اور آر ایس ایس سربراہ کو نشانہ ضرور بنایا جائے گا ۔ اسی اصول کی بنیاد پر دوسرے قائدین کو جب حاشیہ پر لادیا گیا ہے تو یہی قانون مودی یا بھاگوت کیلئے کیوں لاگو نہیں ہوسکتا ۔ جس طرح سے امیت شاہ یا راج ناتھ سنگھ نے واضح کردیا ہے کہ بی جے پی کے قانون میں ایسا کوئی لزوم نہیں ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایل کے اڈوانی ‘ مرلی منوہر جوشی اور جسونت سنگھ جیسے قائدین پر کیوں یہ اصول لاگو کیا گیا تھا اور انہیں کیوں مارگ درشک منڈل بھیج دیا گیا ۔ اس سے اپوزیشن کو یہ الزام عائد کرنے کی گنجائش فراہم ہوجائے گی کہ اقتدار اور کرسی کیلئے مودی اور بھاگوت خود کیلئے ایک الگ اصول رکھتے ہیں اور دوسروں کیلئے ان کا اصول الگ ہوتا ہے ۔ موہن بھاگوت 11 ستمبر 2025 کو اور نریندر مودی 17 ستمبر 2025کو 75 سال پورے کرنے والے ہیں۔ اس وقت سے محض دو ماہ قبل موہن بھاگوت کی جانب سے اس طرح کا بیان دینا کوئی اتفاق بھی نہیں ہوسکتا ۔ آر ایس ایس کے اس تعلق سے کیا منصوبے ہیں یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ بی جے پی لازمی طور پر آر ایس ایس کی ہدایات کو من و عن قبول کرے گی ۔ تاہم یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اس تبصرے کے بعد جو حالات پیدا ہونے والے ہیں وہ ضرور دلچسپ ہوسکتے ہیں اور اپوزیشن کا رد عمل بھی اس پر اہمیت کا حامل ہی ہوگا ۔
سیاسی حلقوں میں یہ تبصرے عام ہیں کہ کم از کم نریندر مودی اقتدار نہیںچھوڑیں گے اور نہ ہی وہ کسی اور کیلئے راستہ فراہم کریں گے ۔ بی جے پی کا ہندوستان میں جو عروج اور اقتدار ہے وہ محض نریندر مودی کی مرہون منت ہے کیونکہ انہیں میڈیا نے ہر مرض کی دواء کے طور پر پیش کیا ہے اور عوام کے ذہنوں میں یہ بات مسلط کردی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے یا ہونا ہے وہ صرف نریندر مودی سے ممکن ہے ۔ تاہم آر ایس ایس سربراہ کے تبصرے کو یکسر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ تبصرے کسی کیلئے اشارہ اور کسی کیلئے نوشتہ دیوار بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ سنگھ اور بی جے پی میں پہلے بھی اختلافات دیکھنے میں آئے تھے اور مستقبل میں بھی اس کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ موہن بھاگوت کا یہ تبصرہ ملک کی سیاست میں کیا رخ اختیار کرتا ہے یہ ابھی واضح نہیں ہے اور اس سے قبل از وقت کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ۔
وزیر خارجہ کا مجوزہ دورہ چین
وزیر خارجہ ایس جئے شنکر چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ گذشتہ پانچ سال میں کسی ہندوستانی وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ ہوگا ۔ چین اور ہندوستان کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اس دورہ کی کافی اہمیت ہے ۔ دونوںملکوں کے مابین کئی مسائل ایسے ہیں جن پر تفصیلی تبادلہ خیال اور سفارتی جدوجہد کی ضرورت ہوگی ۔ خاص طور پر سرحدی تنازعہ پر ہندوستان کو اس دورہ کے موقع پر چین سے دو ٹوک موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ چین ‘ ہندوستان میں کئی سو کیلومیٹر اراضی پر قابض ہے اور وہ وہاںاپنے دفاعی ٹھکانے بھی قائم کر رہا ہے ۔ یہ ہندوستان کی سالمیت کی خلاف ورزی ہے اور اس معاملے پر ہندوستان کو چین کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی زمین کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہئے ۔ اس کے علاوہ چین در پردہ مخالف ہند سرگرمیوں کو بھی ہوا دے رہا ہے۔ اس مسئلہ پر بھی چین سے موقف واضح کرنے کا مطالبہ کیا جانا چاہئے ۔ اس دورہ سے استفادہ کرتے ہوے تمام مسائل پر ہندوستان کے مفادات کیلئے چین کو ایک موثر اور واضح پیام دینے کی ضرورت ہے ۔