۔ 20 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کو نظرانداز کرنا بے وقوفی

   

شیکھر گپتا
ہندوستان میں تقریباً 20 کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ یہ کوئی معمولی آبادی نہیں ہے بلکہ کئی ایک یوروپی ملکوں کی آبادی سے کہیں زیادہ ہے اور کسی بھی طرح مسلمانوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جاریہ ہفتہ تین مختلف گوشوں سے لیکن سنجیدہ آوازیں سنائی دیں جن میں ہندوستان کی اس سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ ساتھ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی موجودگی کس طرح عالمی سیاست میں کردار ادا کرتی ہے۔ ہم نے سطور بالا میں جن تین مختلف گوشوں سے آواز اٹھائے جانے کی بات لکھی ہے۔ ان میں پہلا گوشہ سپریم کورٹ آف انڈیا ہے چونکہ کوئی بھی ادارہ فرد اور افراد سے بالاتر ہوتا ہے۔ ایسے میں چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس اے ایس بوپنا پر مشتمل پنچ نے اس بات کی شکایت کی کہ میڈیا کا ایک گوشہ بعض مسائل پر فرقہ وارانہ مواد پیش کررہا ہے جس سے ہمارے وطن عزیز ہندوستان کی بدنامی ہوسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دراصل کورونا وائرس کی پہلی مہم کے دوران میڈیا کے ایک گوشہ کی جانب سے چلائی گئی من گھڑت، بے بنیاد اور دروغ گوئی پر مبنی رپورٹس اور پروگرامس کا حوالہ دے رہے تھے جس کے ذریعہ عوام کو جان بوجھ کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کیلئے تبلیغی جماعت کے لوگ ذمہ دار ہیں۔ اتفاق سے اس وقت دہلی کے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کا اجتماعی منعقد کیا گیا تھا جس میں شرکت کیلئے دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ آئے تھے۔ بہرحال عدالت عظمی کے ججس نے بہت ہی اہم نکتہ اُٹھایا لیکن ہم بڑے وقار و احترام کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں بہت دیر کردی گئی کیونکہ نہ صرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کیلئے تبلیغی جماعت کو ذمہ دار قرار دیئے جیسے واقعہ سے ہی نہیں بلکہ ہمارے ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے جاری کئے گئے بیانات اور ان کے خلاف کئے گئے شرپسندانہ اقدامات سے ہندوستان پہلے ہی کافی بدنام ہوچکا ہے۔ اب چلتے ہیں دوسرے گوشہ کی طرف جس نے مسلمانوں پر توجہ دینے کیلئے آواز اٹھائی، وہ ہے فلم اداکار نصیرالدین شاہ۔ انہوں نے چند ایک ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے امریکہ کے خلاف طالبان کی کامیابی کا جشن منائے جانے یا آن کیمرہ طالبان کی تائید میں اظہار خیال کئے جانے پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا۔ بعض ایسے بیانات آئے ہیں جس میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کا خیرمقدم کیا گیا۔ نصیرالدین شاہ کے مطابق طالبان کی واپسی ساری دنیا کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے اور اگر کوئی ہندوستانی مسلمان طالبان کی کامیابی کا جشن مناتا ہے تو وہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ نصیرالدین شاہ کہتے ہیں ’’میں بھی ایک مسلمان ہوں، وہ سوال کرتے ہیں کہ آیا ہم اپنے دین اسلام میں اصلاح اور جدت پسندی چاہتے ہیں یا پھر صدیوں قدیم ضعیف الاعتقادی اور وحشی پن کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں۔ نصیرالدین شاہ کے خیال میں ’’حالانکہ افغانستان میں طالبان کا دوبارہ حکومت پالینا دنیا بھر کیلئے فکر کا باعث ہے، اس سے کم خطرناک نہیں ہے ہندوستانی مسلمانوں کے کچھ طبقوں کا ان وحشوں کی واپسی پر جشن منانا۔ آج ہر ہندوستانی مسلمان کو اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ اسے اپنے مذہب میں اصلاح اور جدت پسندی چاہئے یا پچھلی صدیوں کے وحشنی پن کا اقدار۔ میں ہندوستانی مسلمان ہوں اور جیسا کہ ایک عرصہ قبل مرزا غالبؔ فرما گئے ہیں : ’’میرا رشتہ اللہ میاں سے بے حد بے تکلف ہے، مجھے سیاسی مذہب کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ ہندوستانی اسلام ہمیشہ دنیا بھر کے اسلام سے مختلف رہا ہے اور خدا وہ وقت نہ لائے کہ وہ اتنا بدل جائے کہ ہم اسے پہچان نہ سکیں۔
مسلمانوں کے تعلق سے جو تیسری آواز اٹھی ہے، وہ سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ کی ہے۔ وہ بار بار یہ دریافت کرتے ہوئے مودی حکومت کو طنز و طعنوں کے تیروں کا نشانہ بنارہے ہیں کہ ’’کیا وہ (مودی حکومت) اب بھی طالبان کو ’دہشت گرد‘ تصور کرتے ہیں۔ عمر عبداللہ نے مودی حکومت سے جو کچھ کہا یا مودی حکومت طالبان سے متعلق جو کچھ کررہی ہے، وہ دراصل ایک سیاسی کُشتی ہے، ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ (مودی حکومت) تو ہندوستانی مسلمانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ طالبان کی مذمت کریں اور طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر ان سے بے تعلقی کا اعلان کریں لیکن دوسری طرف آپ (حکومت) کیا کررہی ہے۔ آپ تو ہندوؤں کے حق میں بات کرتے ہیں۔ اب طالبان کو دہشت گرد قرار دیں۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب مودی حکومت اور بی جے پی دونوں نہیں دے سکتے۔ اگر وہ اپنے سابقہ موقف پر قائم رہتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ طالبان اور دہشت گردی مساوی ہے اور اسی خطوط پر طالبان کے بارے میں بیانات دیتے ہیں تو طالبان سے بات چیت کے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں اور حکومت کا یہ اقدام پاکستان کو افغانستان، دبابے، ہیلی کاپٹرس، جنگی طیارے اور رائفلس بطور تحفہ پیش کرنے کے مانند ہوسکتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس سے ہندوستان ساری دنیا سے الگ تھلگ ہوجائے گا۔ طالبان فی الوقت فاتح ہیں اور صورتحال پوری طرح ان کے حق میں ہے اور عالمی برادری نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور دنیا نے یہ صرف اس لئے نہیں کیا کہ یہ افغانستان۔ پاکستان علاقہ میں قدیم جاگیردارانہ اُصول ہیں۔ عمر عبداللہ نہ صرف بی جے پی کو شدید طنز کا نشانہ بنارہے ہیں بلکہ وہ اہم نکتہ بھی اُٹھا رہے ہیں کیونکہ موجودہ سیاسی حالات میں جہاں یوپی اسمبلی انتخابات آرہے ہیں، ان انتخابات میں بی جے پی، اسلام کا مطلب دہشت گردی، مطلب آئی ایس آئی ایس، مطلب لشکر طیبہ ؍ جے ای ایم، طالبان جیسے خطوط پر زیادہ توجہ مرکوز کرے گی، دانشوروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کایہی کہنا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ افغانستان میں طالبان نے اقتدار حاصل کرلیا ہے، مودی حکومت؍ بی جے پی کو کیا کرنا چاہئے؟ بی جے پی نے دو عام انتخابات واضح اکثریت سے جیتی ہے جبکہ مسلمانوں کے ووٹ نہ دینے کے باوجود اس نے یوپی اسمبلی انتخابات بھی تقریباً تین چوتھائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے 15% ووٹ کا کوئی شمار نہیں۔ بہرحال موجودہ طور پر یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ بی جے پی ؍ حکومت نئے حالات میں کیا کریں گے، طالبانی جغرافیائی حکمت عملی ایک حقیقت ہے۔ اس پر ہمارا ردعمل کیسا ہوگا؟ سیاسی حکمت عملی کیا ہوگی؟ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے خلیجی ممالک کو قریب کرنا یا ان سے قربت اختیار کرنا الگ چیز ہے اور طالبان کا معاملہ الگ ہے۔ اب بی جے پی مسلمانوں کے خلاف اپنے اشتعال انگیز بیانات کے ساتھ کہاں جائے گی؟ ہندوستان کو پہلے سے ہی مغربی سرحدوں پر خطرات لاحق ہیں لیکن حکومت ان خطرات کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے۔ دوسری جانب ہندوستان میں مسلم نوجوانوں میں برہمی پائی جاتی ہے۔ موجودہ صورتحال بی جے پی کیلئے نئی نہیں بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں کیلئے ایک نوشتہ ٔ دیوار ہے۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ مسلمان بی جے پی کے خوف سے انہیں ووٹ دیں گے لیکن اب تو اسدالدین اویسی کی ایم آئی ایم اور بدرالدین اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف میدان میں اُتر چکی ہیں اور وہ جماعتیں غیربی جے پی جماعتوں کے مسلم ووٹ حاصل کررہی ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو آج بھی اقتدار کے ڈھانچے سے دُور رکھا گیا ہے۔ یہ صرف بی جے پی ہی نے نہیں کیا بلکہ کانگریس اور غیربی جے پی دوسری جماعتوں نے بھی کیا ہے۔ میں نے اپنے مضمون کا آغاز سپریم کورٹ کے حوالے سے کیا تھا اور اختتام بھی سپریم کورٹ کے حوالے سے ہی کرتا ہوں۔ چیف جسٹس این وی رمنا نے یہاں تک کہا کہ عدلیہ کو نہ صرف ہندوستان کی متنوع تہذیب کے بارے میں بولنا چاہئے، بلکہ اس کی نمائندگی بھی کرنی چاہئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ججس کے انتخاب میں کالجیم اس کا عملی نمونہ پیش کرے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ کالجیم نے 9 نئے ججس کے ناموں کا اعلان کیا جن میں 3 خواتین، او بی سی اور دلت امیدوار شامل تھے، لیکن ایک بھی مسلمان شامل نہیں تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سپریم کورٹ کے 33 ججس میں سے صرف ایک جج مسلم ہے۔