۔100 دن بعد بھی کسانوں کا احتجاج برقرار اور تیزرفتار

   

روہت کمار
کسانوں کا احتجاج شدت کے ساتھ 100 دن سے زیادہ کی مدت پار کرچکا ہے۔ خیموں، ٹریکٹروں اور ٹرالیوں کا ایک قافلہ ٹیکری سرحد کے علاقہ میں موجود ہے۔ ان تمام نے 20 کیلو میٹر کا فاصلہ گھیر رکھا ہے اور دن بہ دن ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ گرمی کی شدت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ہیمکنت فاؤنڈیشن نامی این جی او نے پوری دہلی میں موسم سرما کے دنوں میں غریبوں کو گرم لباس اور اوڑھنے کے لئے کمبل فراہم کئے تھے یہی این جی او ہر گھنٹہ کاشتکاروں کو ایک ہزار لیٹر ٹھنڈا پینے کا پانی فراہم کررہی ہے۔ فیروز پور کے اجیت سنگھ سے جو ٹیکری کے مقام پر 26 نومبر سے قیام کئے ہوئے ہے اس کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس پر اس نے جماہی لی۔ اس نے کہا کہ روزانہ 4 بجے شام سے یہاں پر تقریروں کا آغاز ہو جاتا ہے جو عام طور پر کھوکھلے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں۔ شام کے وقت دوپہر کے وقت اور صبح کے وقت لنگر چلایا جاتا ہے اور ہم سب کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
اجیت سنگھ کو اپنے پورے ارکان خاندان کو پالنا ہے لیکن وہ سوویت یونین کے دور کے ایک لطیفہ کو یاد کرتا ہے۔ سکندر اعظم، جولیس سیزر اور نیپولین یوم مئی کی پریڈ کا ماسکو کے سرخ چوک میں مشاہدہ کررہے تھے۔ سکندر نے کہا کہ اگر وہ اس طرح کے بندوقچی حاصل کر لیتا تو شاید صرف دو سال میں پوری دنیا پر فتح پالیتا لیکن مجھے اسی کام کے لئے دس سال لگے۔ جولیس سیزر نے کہا کہ اگر مجھے ایسے دبابے حاصل ہو جاتے تو اسے بابروں سے نمٹنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی لیکن اسے ایسے دبابے کبھی حاصل نہیں ہوئے۔ نیپولین نے کہا کہ اگر اسے ایک اخبار جیسے کہ سوویت یونین کا اخبار پراؤدا ہے حاصل ہو جاتا تو واٹرلو کا نام بھی کوئی نہ سن پاتا۔
ہندوستانی ذرائع ابلاغ بھی آج کل نیپولین کا کردار ادا کررہے ہیں۔ کم از کم وہ افراد جو سفید رنگ کے لباس میں ملبوس ہوتے ہیں یہی کام کررہے ہیں۔ میگزین کاروان کے مطابق ’’نتن گوکھلے جو ماضی میں این ڈی ٹی وی اور تہلکہ میں رہ چکے ہیں اور اب مشیر قومی سلامتی اجیت دوول کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں مشورہ دیتے ہیں کہ حکومت کو صحافیوں کے لئے رنگ مقرر کردینا چاہئے۔ جیسے کہ سبز، سیاہ اور سفید ایسے صحافیوں کے لئے جو دیوار کی بِلی ہوں، سیاہ مخالفین کے لئے اور سفید حامیوں کے لئے۔
قیادت کی تبدیلی کے نتیجہ میں کسانوں کی جدوجہد ایک بار پھر زرعی قوانین کے خلاف نہیں رہ جائے گی، حالانکہ زرعی قوانین کی مخالفت ایک نظریہ ہے، جس نے حکومت کے جبر اور ظلم کی وجہ سے جنم لیا ہے، یہ ہندوستان کا نظریہ ہے۔ ہندوستانیوں کو مساوی حقوق اور مساوی وقار حاصل ہے اور وہ ابتدا ہی سے زرعی قوانین کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کا ادعا ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ یہ ہندوستانی نظریہ تسلیم نہ کرلیا جائے۔ کیونکہ ہندوستانی جمہوریت کی بنیادیں ہمارے آبا و اجداد نے رکھی تھیں اور ہماری ماؤں نے ہمارے نظریات کے خواب کو ان کی تعبیر بنا دیا ہے۔
اس دور میں جبکہ جمہوریت کے بارے میں ایک جنون پیدا ہوگیا ہے جو سب سے ارفع و اعلیٰ سمجھی جاتی ہے۔ ملک کا جو ایک کسان کے بیٹے ہیں کہنا ہے کہ انہیں اس کے بارے میں ٹیکری کے بچوں کے ایک اسکول میں پڑھایا گیا تھا جبکہ وہ ایک بچے تھے۔
ہر روز ہم دیکھتے ہیں کہ غریب خاندانوں کے بچے لنگر خانوں کے اطراف غذائی اجناس مانگ کر کھاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک ماہ قبل ہم نے فیصلہ کیا کہ ان بچوں کے لئے ایک اسکول قائم کیا جائے۔ چنانچہ آج ان کے دو پہر کے اسکول میں 5 تا 15 سال کی عمر کے 50 بچے زیر تعلیم ہیں۔ فکرمند شہری اسکول آتے ہیں اور بچوں میں کاپیاں اور اسٹیشنری سربراہ کرکے چلے جاتے ہیں۔ تمام بچے ذہین ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ مکمل تعلیم حاصل کریں۔ چنانچہ ایک خیمہ میں کسان اسکول قائم کیا گیا ہے اور یہ بچوں میں خوشی بانٹنے کی جگہ ہے۔
کتابیں پڑھنے، لکھنے اور حساب کرنے سے تعلیم حاصل کرکے یہ بچے گیت گانا، کھیلنا اور سماج کی خدمت کرنا بھی یہاں سیکھتے ہیں۔ دہلی کے چند ہائی اسکول ٹیچرس اسکول کا دورہ کرچکے ہیں اور انہوں نے بعضوں کو حفظان صحت پیاکیج اور دانت صاف کرنے کے بریش، ٹوتھ پیسٹ، صابن، مزیدار کہانیاں، کنگھے اور تولئے سربراہ کئے ہیں۔ وہ گیت گاکر بچوں کو تعلیم دیتے ہیں جس میں بچوں کو صاف ستھرا رہنا سکھایا جاتا ہے۔ صاف پانی صحت کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ بچوں کو اس کی تعلیم دی جاتی ہے۔ انہیں مفت غذا فراہم کی جاتی ہے۔ ہر گلی میں ایک اسکول غیر مستحق بچوں کے لئے قائم ہے لیکن مستحق بچوں کے لئے کسان اپنے زیر انتظام اسکول قائم کررہے ہیں جہاں پر بچوں کو بہادر اور صبر و تحمل رکھنے والا بنایا جاتا ہے۔ ان بچوں کو ہندوستان سے محبت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان صرف مراعات یافتہ چند افراد کے لئے نہیں ہے بلکہ ہم سب کا ہے۔
ٹیکری سرحد کا علاقہ ہندوستان کے بہترین افراد کے قیام کی جگہ بن گیا ہے اور وہ دنیا بھر کو ایک بہترین ہندوستان سے واقف کروانا چاہتا ہے جس کے افراد کو برے کاموں پر شرم آتی ہے اور اس کے برعکس کام کرنے پر فخر کا احساس ہوتا ہے۔