دامن کی دھجیاں سرِ بازار لٹ گئیں
مقتل میں اب متاعِ دل و جاناں بھی لے چلو
3 ۔ اموات کا بدلہ کون دیگا
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سارا ہندوستان سراپا احتجاج بن چکا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں عوام سڑکوں پر اُتر آئے ہیں اور حکومت کو اپنی طاقت کا احساس دلارہے ہیں۔ منگلور میں احتجاجیوں پر پولیس نے فائرنگ کردی اور نوجوان2 نوجوان زندگی ہار بیٹھے۔ اس طرح لکھنؤ میں بھی پولیس نے گولیاں داغیں اور ایک نوجوان جان گنوا بیٹھا۔ ملک کے تقریباً سبھی شہروں میں پولیس احتجاجیوں پر بے تحاشہ مظالم ڈھارہی ہے ان پر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ آنسو گیس کے شیل برسانا عام بات ہوگئی تھی اور اب فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے ، یہ انتہائی مذموم عمل ہے۔ سڑکوں پر احتجاج کرنے والے عوام کو گولیوں سے نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ دہلی سے بہار، یو پی سے کرناٹک اور کئی شہروں میں پولیس طاقت کا استعمال کررہی ہے۔ احتجاجیوں کی آنکھیں ضائع ہورہی ہیں۔ وہ شدید زخمی ہورہے ہیں اور ایسے میں اُتر پردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ نے احتجاجیوں سے بدلہ لینے کی بات کی ہے۔ آدتیہ ناتھ کا جو لب ولہجہ تھا وہ انتہائی افسوسناک تھا اور وہ کسی ریاست کے ذمہ دار چیف منسٹر کا رویہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ آدتیہ ناتھ ایسا لگتا ہے کہ آج بھی ہندو مہا سبھا لیڈر کے لب و لہجہ میں بات کررہے ہیں جو کسی چیف منسٹر کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ امن و قانون کی برقراری یقینی طور پر ایک ریاست کے سربراہ کا ذمہ ہے لیکن اس طرح کا لب ولہجہ ان کے انتقامی جذبہ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی عوامی احتجاج میں سرکاری املاک کا نقصان نہیں ہونا چاہیئے لیکن انتقام یا بدلہ کی بات انتہائی افسوسناک ہے۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ لب و لہجہ ایک چیف منسٹر کا ہے۔
واقعی اگر بدلہ لینے کی بات ہے تو پھر تین نوجوان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، ان کا بدلہ کون دے گا۔ احتجاجیوں پر قابو پانے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ پہلے لاٹھی چارج کیا جاسکتا ہے ، آنسو گیس کے شیل برسائے جاسکتے ہیں، پھر ہوا میں فائرنگ کی جاسکتی ہے۔پھر اگر فائرنگ ضروری ہوجائے تو پیروں پر نشانہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کی پولیس چاہے وہ کسی بھی ریاست کی ہو راست احتجاجیوں کی زندگیوں کو نشانہ بنارہی ہے۔ کیا پولیس سے یہ سوال نہیں ہونا چاہیئے کہ انہوں نے جو قانونی طریقہ کار ہونا چاہیئے وہ کیوں اختیار نہیں کیا ؟ پولیس سے سوال کرنے اور جواب طلب کرنے کی بجائے احتجاجیوں سے بدلہ لینے کی بات کی جائے تو اس سے پولیس کے حوصلے بلند ہوں گے اور اسے نہتے احتجاجیوں پر فائرنگ کرنے میں کبھی بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوگا۔ پولیس جہاں امن وقانون کی برقراری کیلئے ہوتی ہے وہیں عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن ہماری پولیس اس کے مغائر کام کررہی ہے، اس کے رویہ پر جواب طلب کرنے کے بجائے عوام سے انتقام لینے کی بات افسوسناک ہے۔
پولیس کی فائرنگ نے تین زندگیوں کا خاتمہ کردیا ، تین گھروں کو اُجاڑ دیا گیا ، ملک کے نوجوان اور طالب علم ہمارا مستقبل ہوتے ہیں اگر ان ہی نوجوانوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا جائے تو ایک طرح سے ہم اپنے ملک کے مستقبل کو ہی اُجاڑ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ نوجوانوں پر فائرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے ، ان کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں اور انہیں جوابدہ بنایا جائے لیکن احتجاجیوں سے بدلہ لینے کی بات کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے اور چیف منسٹر یو پی کو اس پر معذرت کرنے کی ضرورت ہے۔