’شاہین باغ‘ سیاسی سازش! ’نوٹ بندی ‘ معاشی سازش؟ ’گودھرا 2002‘ مجرمانہ سازش؟

   

عرفان جابری
وزیراعظم مودی کا دعویٰ ہے کہ شاہین باغ دہلی میں سی اے اے؍ این پی آر؍ این آر سی کے خلاف جاری خواتین کا احتجاج ’’اتفاقی‘‘ نہیں بلکہ سیاسی سازش ہے۔ پی ایم دہلی اسمبلی الیکشن کے جلسہ عام سے مخاطب تھے۔ ظاہر ہے اُن کا اشارہ ریاست میں برسراقتدار عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی طرف ہے کہ ان پارٹیوں نے انفرادی یا اجتماعی طور پر سازش رچائی کہ شاہین باغ میں احتجاج منظم کراتے ہوئے مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کو مخالف اقلیت قانون و اقدامات پر بدنام کیا جائے۔ مودی کے علاوہ دیگر بی جے پی لیڈروں نے یہ تک کہا ہے کہ شاہین باغ میں عورتوں کو فی کس 500 روپئے پر جمع کیا گیا ہے۔ شاہین باغ کی غیور خواتین نے کرارا جواب دیا کہ اگر ایسا ہے تو بی جے پی آئے اور فی کس 5,000 روپئے دے کر احتجاج کو ختم کر دکھائے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی خود سازش رچاتے ہیں یا پھر سامنے والی ہر چیز میں اُن کو سازش نظرآتی ہے۔ سب سے پہلے نومبر 2016ء کا معاملہ لیتے ہیں… ’نوٹ بندی‘۔ درجنوں ماہرین معاشیات اور دانشوروں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ یہ آزاد ہندوستان کا سب سے بڑا اسکام ہے۔ آج تک نوٹ بندی کے نتائج آر بی آئی نے منظرعام پر لائے ہیں، نہ حکومت نے کوئی خلاصہ کیا ہے۔ اگر کچھ مثبت ہوتا تو کیا جاتا۔سب کچھ مشکوک معلوم ہوتا ہے۔ نوٹ بندی سے عین قبل مودی کی آبائی ریاست گجرات کے کئی شہروں میں 500 اور 1,000 روپئے کی نوٹوں سے چھٹکارہ پاتے ہوئے گولڈ (سونا) کی خریداری کی گئی۔ اُس وقت بی جے پی زیراقتدار بعض دیگر ریاستوں میں بھی یہی رجحان دیکھنے میں آیا۔ یعنی جن کو 500 اور 1,000 کی کرنسی نوٹس کا چلن یکایک بند کردینے سے ہونے والے نقصان سے بچانا تھا، مودی جی نے بچا لیا اور عوام کو قطاروں میں مرنے چھوڑ دیا۔
نوٹ بندی کا اصل نشانہ تو میرے خیال میں اترپردیش کے اسمبلی انتخابات تھے۔ نئے 2,000 کے کرنسی نوٹ کے چلن کو بمشکل ایک ماہ ہوا تھا کہ سب سے بڑی قدر والی نوٹوں کی بڑی بڑی کھیپ کی غیرمجاز منتقلی پکڑی اور ضبط کی گئی۔ حتیٰ کہ نئے نوٹوں کی جعلی کرنسی بھی عوام کے ہاتھوں میں پہنچنے لگی۔ نوٹ بندی کے تین ماہ بعد یو پی اسمبلی الیکشن 2017ء منعقد ہوا۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست میں بی جے پی برسہابرس
بے اقتدار رہنے کے بعد حکومت کی باگ ڈور دوبارہ سنبھالنے بے چین تھی۔ نوٹ بندی سے سارا ملک پریشان تھا۔ بلا لحاظ مذہب غیرمعمولی دقت کا سامنا ہورہا تھا۔ اس پس منظر میں یو پی اسمبلی کا الیکشن ہوا، اور بی جے پی جس کے پاس وزارت اعلیٰ کا امیدوار تک نہیں تھا، 403 رکنی اسمبلی میں 325 نشستیں جیت جاتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ آج کے دور میں ہندوستان میں کوئی الیکشن پیسہ کی طاقت کی بناء نہیں ہوتا۔ ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کے بارے میں تو پہلے سے ہی تمام اپوزیشن کو شک تھا۔ اب نوٹ بندی کے بعد پیسہ کی طاقت صرف بی جے پی کے پاس تھی، اپوزیشن پارٹیاں چاہ کر بھی اپنے کارکنوں پر پیسہ خرچ نہیں کرپا رہی تھیں۔ نتیجتاً بی جے پی کے مقابل چیف منسٹر اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی، مایاوتی کی بی ایس پی اور کانگریس پر مشتمل مہاگٹھ بندھن کو شکست ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ دہلی میں مرکزی اقتدار کا راستہ یو پی میں حکمرانی سے ہوکر گزرتا ہے۔ آزاد ہند میں یہ بات بڑی حد تک سچ ثابت ہوئی ہے۔ اس مرتبہ مرکز میں مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے یو پی میں بی جے پی حکمرانی راہ ہموار کی۔ ہے نا یہ نوٹ بندی کا کمال؟ کیا اسے ’معاشی سازش‘ کہنا غلط ہے؟
ہر سال ماہ فروری ، گودھرا ٹرین آتشزنی اور اس کے بعد ہولناک گجرات فسادات کی دل و دماغ کو جھنجھوڑ دینے والی یاد دلاتا ہے۔ وزیراعظم کی دانست میں ’شاہین باغ کی سیاسی سازش‘ ہو یا میرے خیال میں ’نوٹ بندی کی معاشی سازش‘ گودھرا 2002ء کی خوفناک ’مجرمانہ سازش‘ کے آگے ہیچ ہیں۔ یہی سازش تو ہے جس نے غیرمعروف بی جے پی کارکن؍ عہدہ دار مودی کو یکایک ہندوؤں کا ’ہیرو لیڈر‘ بنا دیا۔ میرا ماننا ہے کہ گودھرا 2002ء سے پانچ ماہ قبل نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ نہایت شاطر عالمی طاقتوں کی گھناؤنی سازش رہی، جس کے اثرات اسامہ بن لادن کی موت کے برسوں بعد بھی متعدد عرب ملکوں میں محسوس کئے جارہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان میں کئی فرقہ پرست اور کٹرپسند قوتوں نے ڈبلیو ٹی سی کے سازشی واقعہ سے اثر قبول کیا۔ اس کو ’’گھر بار، اصل سماج سے بے تعلق اور عام انسان کی خاصیتوں سے نابلد‘‘ مودی نے چیف منسٹر گجرات رہتے ہوئے اپنی ریاست میں عملی شکل دی۔ گجرات کے مسلمانوں کیلئے ریاست کا ماحول ڈراؤنا اور خوفناک بنا دیا گیا۔ جو اچھی حیثیت کا تھا، کسی طرح وہیں ٹکا رہا اور باقی سب وہاں سے دیگر ریاستوں کو بھاگ کھڑے ہوئے۔ اسی سال 2002ء کے اواخر میں گجرات اسمبلی الیکشن مقرر تھا ۔ مودی تو ہندو ووٹروں کے ہیرو بن چکے تھے۔ مسلمانوں کو پولنگ بوتھ جانے میں تک خوف ہورہا تھا۔ واضح اکثریت سے مودی اور بی جے پی گجرات اسمبلی الیکشن جیت گئے۔ بی جے پی حکومت آج تک برقرار ہے۔ اس پورے عرصے میں ڈسمبر 2017ء میں راہول گاندھی زیرقیادت کانگریس نے بی جے پی کو ٹکر دی اور 182 رکنی اسمبلی میں اس کی نشستیں 100 سے نیچے لے آئی۔
میں نے سوائے جواہر لعل نہرو اور لال بہادر شاستری تمام وزرائے اعظم کا دور دیکھا، اُن کی تقرریں اُن کی زندگی میں سنی ہیں۔ ’جھوٹے لیڈر‘ اور ’جھوٹے وزیراعظم‘ کی مسابقت میں مودی کے قریب کوئی نہیں پہنچ سکتے۔ ڈسمبر 2012ء میں دہلی میں گھناؤنے گینگ ریپ اور قتل کے بعد یو پی اے حکومت ۔ II زوال پذیر ہونے لگی۔ ماحول سازگار دیکھتے ہوئے مودی کو ستمبر 2013ء میں این ڈی اے کا وزارت عظمیٰ امیدوار نامزد کیا گیا۔ 2014ء کا لوک سبھا الیکشن جیتنے تک ’لیڈر‘ مودی نے جو جو وعدے کئے، پہلی میعاد میں کوئی بھی پورا نہیں کیا۔ دوسری میعاد میں وزیراعظم کی حیثیت سے جو جو دعوے ہورہے ہیں، وہ جھوٹ اور مکاری کے سواء کچھ نہیں۔
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com

’جھوٹے لیڈر‘ کے وعدے …
٭ سالانہ 2 کروڑ نوکریاں (اُلٹا لاکھوں نوکریاں چھن گئیں)
٭ کالا دھن سے ہر شہری کو 15 لاکھ روپئے کی ادائیگی (کالادھن کا اب ذکر تک نہیں)
٭ ’گنگا‘ صاف ہوگی (گنگا کی ذمہ دار دستبردار، مسئلہ جوں کا توں برقرار)
’جھوٹے وزیراعظم‘ کے دعوے…
٭ 5 ٹریلین کی معیشت بنائیں گے (ترقی کی شرح اُلٹی چل رہی ہے)
٭ 45 سال میں بیروزگاری کی بدترین شرح (حکومت ذکر تک نہیںکرتی)
٭ سرمایہ کاری کے بلند نشانے (حقیقت میں سرمایہ کاری جمود کا شکار)
٭ مسلم خواتین کو تین طلاق کی فکرمندی (اب خاتون احتجاجیوں کا سامنا نہیں ہوپارہا)
٭ کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہندوستان (ملک میں زیادہ رہتے تو اس کی حالت کا پتہ چلتا)