’’ این پی آر‘‘ ۔ سی اے اے کی پہلی سیڑھی

   

بیج نفرت کا ڈالتے کیوں ہیں
کیسی فصلیں اُگارہے ہیں لوگ
’’ این پی آر‘‘ ۔ سی اے اے کی پہلی سیڑھی
شہریت ترمیمی قانون جیسے سنجیدہ، خطرناک اور نازک مسئلہ کو لیکر ریاست تلنگانہ سے لیکر سارے ملک میں کٹھ پتلی کا میلہ سجانے والوں نے حکومت کی مدد کرنے میں کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ بظاہر کئی ریاستوں نے سی اے اے کے خلاف قراردادیں منظور کردی ہیں، تلنگانہ کی کابینہ نے بھی سی اے اے کے خلاف اسمبلی میں قرارداد منظور کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اصل مسئلہ این پی آر پر عمل آوری سے انکار کرنے کا ہے ، لیکن تلنگانہ حکومت این پی آر اور این آر سی پر خاموش ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کی منہ بولی دوست پارٹی جگہ جگہ جلسوں کے ذریعہ عوام میں اپنی مقبولیت کے ہر لمحہ سے استفادہ کررہی ہے۔ پارٹی کے سربراہ کو حیدرآباد کے عوام نے مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ شہر ہو یا مرکز ہر جگہ اپنی سیاسی چالاکیوں سے وقت ضائع کرتے جائیں۔ اس سی اے اے کے کٹھ پتلی میلہ میں لیڈر کی تقریروں سے محظوظ ہونے والے عوام اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے کتنے سنجیدہ ہیں یہ غور طلب امر ہے۔ تلنگانہ حکومت نے این پی آر کو روبہ عمل لانے کا انتظام کرلیا ہے۔ یہ این پی آر ہی مسلمانوں کو ڈسٹنشین سنٹر لے جانے والی پہلی سیڑھی ہے۔ اگرچیکہ این پی آر اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ این پی آر کے لئے آنے والے عہدیداروں سے تعاون نہیں کریں گے ۔ اس سے ان عہدیداروں کو کوئی فرق نہیں پڑ گا، بلکہ جب این پی آر کا عمل پورا ہوجائے گا اور جن لوگوں نے تعاون نہیں کیا ان کے لئے مزید مسائل پیدا کردیئے جائیں گے، زندگی کے ہر معاملہ میںیعنی اسکولوں میں بچوں کے داخلوں ، بنکوں، الیکٹریسٹی بل، پانی کے بل، پاسپورٹ بنانے اور مالیاتی لین دین، زمینات، گھروں کی رجسٹری کو این پی آر سے جوڑدیا جائے گا توجن لوگوں نے تعاون نہیں کیا ، جن کے پاس این پی آر لیٹر یا نمبر نہیں ہوگا انہیں یکا و تنہا کردیا جائے گا۔ ایسے میں آگے کی صورتحال کیا ہوگی یہ تشویشناک بات ہے۔ اس لئے ہر جگہ ہر ریاست میں این پی آر کے عمل کو شروع ہی نہیں کرنا چاہیئے۔ جب تک حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں منظورہ قوانین کو واپس نہیں لیا جاتا یا ترمیم شدہ قوانین میں دوبارہ ترمیم کرکے لفظ’ مذہب ‘نکالا نہیں جاتا ہندوستان کے اندر ہر شہری پر سی اے اے کی ننگی تلوار لٹکے گی بلکہ صرف مسلمان ہی اس کی زد میں آنے کا اندیشہ پایا جاتا ہے۔ اس نازک اور کھلے خطرے کے سامنے مسلمانوں نے سڑکوں پر احتجاج اور کٹھ پتلی کے اسٹیج سجانے والوں کے تماشے دیکھ کر مطمئن ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر وہ اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو حکمراں طاقتوں کے غلام بنانے کا بندوبست کررہے ہیں۔ مسلم معاشرہ میں کہنے کو تو سی اے اے کے خلاف بہت کہا جارہا ہے لیکن اصل مسئلہ جوں کا توں ہے۔ مرکزی حکومت نے اس کو بہرحال روبہ عمل لانے کا فیصلہ لیا ہے ۔ ریاستی حکومتوں میں سے صرف چند نے این پی آر یا سی اے اے کی مخالفت کی ہے ، تلنگانہ حکومت نے این پی آر اور این آر سی کے بارے میں کوئی رائے ظاہر نہیں کی صرف سی اے اے کو روکنے کی قرارداد پر زور دیا ہے۔ سی اے اے کے ساتھ این پی آر پر بھی عمل نہ کرنے کا اعلان کردیا جائے تو ایسا کرنے کی دیگر ریاستوں کو بھی ترغیب ملے گی۔ کیرالا نے این پی آر پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد تلنگانہ کو بھی این پی آر اور این آر سی کے بارے میں واضح موقف ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ بعد ازاں دیگر ریاستیں بھی جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے کالے قوانین کے خلاف ایک مضبوط رائے سامنے آئے گی تو مرکز کو گھٹنے ٹیکنے کیلئے مجبور کیا جاسکتا ہے۔ سی اے اے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کی پولیس کی جانب سے اجازت نہ دینے پر اس کا متبادل طریقہ اختیار کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چند لوگ ہی احتجاجی مظاہروں کے لئے آگے آرہے ہیں، اس لئے تلنگانہ کی پولیس بھی کٹھ پتلی کا میلہ کرنے والوں کے اشاروں پر سی اے اے احتجاجیوں کی ہنسی اُڑاتے ہوئے ڈنڈے لہرارہی ہے۔ غور کیجئے، آخر یہ مسئلہ یوں ہی چلتا رہا اور این آر سی کا عمل بھی اسی طرح لاگو کیا گیا تو ایک عجیب سی بے یقینی کے ساتھ کچھ واضح نہیں ، کچھ کھل کر سامنے نہیں آرہا ہے۔ کہیں ہنگامہ آرائی ہے، کہیں سیاسی رسہ کشی اور کہیں وہی پرانی ریشہ دوانیاں جاری ہیں، جن میں کبھی چال بازی ہے تو کبھی وہی جانی پہچانی عیاری اور پھر آگے نقصانات اور مسائل کا شکار اس مخلوق کو ہی ہونا پڑے گا جس کو عام اصطلاح میں ’ مسلمان ‘ کہتے ہیں۔