محکمہ برقی سے جسٹس بھیماپاکا کا استفسار، برقی عہدیدار کو حاضر عدالت ہونے کی ہدایت
حیدرآباد ۔ 17۔ ڈسمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ ہائی کورٹ نے خانگی یونیورسٹی گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی اینڈ مینجمنٹ کی جانب سے 118.13 کروڑ کے برقی بقایہ جات کے حصول میں ناکامی پر محکمہ برقی کے عہدیداروں پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ عدالت نے کہا کہ محکمہ برقی کا یہ اقدام دوہرے معیار کے تحت آتا ہے ، جہاں وہ غریب صارفین کو معمولی بقایہ کی صورت میں کسی نوٹس کے بغیر برقی کنکشن منقطع کردیتے ہیں لیکن اس قدر بھاری بقایہ جات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جسٹس ناگیش بھیماپاکا نے کہا کہ برقی عہدیداروں نے یونیورسٹی کو صرف نوٹس جاری کرنے پر اکتفاء کیا اور ڈسکام کی جانب سے برقی کنکشن منقطع کرنے کی ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا ۔ جسٹس بھیماپاکا نے اپنا شخصی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بچپن میں محض 800 روپئے برقی بقایہ ہونے پر ان کے گھر کا کنکشن منقطع کردیا گیا تھا۔ انہوں نے سپرنٹنڈنگ انجینئر ، آپریشن سرکل سنگا ریڈی اور سدرن پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی کے متعلقہ عہدیدار کو آئندہ سماعت کے موقع پر شخصی طور پر حاضر عدالت ہونے کی ہدایت دی تاکہ یونیورسٹی کا برقی کنکشن منقطع کرنے کی راہ میں رکاوٹ کی وضاحت کی جاسکے۔ گیتم یونیورسٹی نے ڈسکام کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ جسٹس بھیما پاکا نے 22 ڈسمبر کو آئندہ سماعت مقرر کی ہے ۔ یونیورسٹی نے برقی بقایہ جات کی ادائیگی کیلئے ڈسکام کی جانب سے جاری کردہ نوٹسوں کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ سپرنٹنڈنگ انجینئر نے ستمبر 2025 میں پہلی مرتبہ نوٹس جاری کرتے ہوئے بقایہ جات ادا کرنے کی ہدایت دی۔ یونیورسٹی کے وکیل نے بتایا کہ عہدیدار کی نوٹس غیر قانونی اور یکطرفہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف کو ملحوظ رکھے بغیر ہی نوٹس جاری کی گئی ۔ سدرن پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی کے اسٹانڈنگ کونسل نے عدالت کو بتایا کہ یونیورسٹی نے 2020 میں بھی اسی طرح کی درخواست دائر کی تھی۔ ابتداء میں عبوری راحت حاصل ہوئی تاہم بعد میں درخواست واپس لے لی گئی۔1
فریقین کی سماعت کے بعد جسٹس بھیما پاکا نے خانگی یونیورسٹی کے خلاف طویل عرصہ سے بھاری برقی بقایہ جات کے حصول میں ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا۔1
