اپنی بے چارگی شام الم کیا کہیئے
کوئی آنسو بھی نہیں ہے کہ اجالا کردے
آدتیہ ناتھ حکومت اور مسلمان
کسی بھی ریاستی حکومت کیلئے ریاست کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود اصل ترجیحات ہوتی ہیں۔ حکومتیں عوام کی بہتری اور فلاح کیلئے مختلف اسکیمات تیار کرتی ہیں اور پھر ان پر عمل آوری کے ذریعہ عوام کو راحت اور سہولیات فراہم کرنے کیلئے سرگرم ہوجاتی ہیں۔ عوام کی غربت کو ختم کرنے اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے اور روزگار فراہم کرنے ‘ خواتین کی عزت و عصمت کا تحفظ کرنے اور انہیں با اختیار بنانے کیلئے اسکیمات بنائی جاتی ہیں۔ سماج کے ہر طبقہ کی بہتری کیلئے نت نئے اقدامات کئے جاتے ہیں تاکہ ریاست کی بحیثیت مجموعی ترقی میں ہر طبقہ ثمرات میں حصہ دار بن سکے تاہم ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت کے پاس صرف ایک ایجنڈہ بچا ہوا ہے اور وہ صرف مسلم دشمنی ہے ۔ آدتیہ ناتھ کی حکومت نت نئے انداز سے مسلمانوں کو ہراساں و پریشان کرنے میں سارے ملک میں اول مقام حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ ریاست میں لا قانونیت انتہا پر ہے ۔ خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ عصمت ریزی کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ قتل و غارت گری کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے ۔ اغوا اور تاوان یہاں کا معمول بن چکا ہے ۔ بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ سماج کا کوئی طبقہ محفوظ نہیں رہ گیا ہے ۔ ریاست میں تعلیم کے شعبہ کا حال تو سب سے بڑا ہے ۔ ان سارے امور پر توجہ دینے اور حالات کو بہتر بنانے کی بجائے آدتیہ ناتھ کی حکومت مسلم دشمنی میں آگے بڑھتی جا رہی ہے ۔ نت نئے اقدامات کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ انہیں ہراساں و پریشان کرتے ہوئے ان میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جا رہا ہے ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے کی باضابطہ اور منظم مہم شروع کردی گئی ہے ۔ اس ساری صورتحال کے باوجود مرکزی حکومت بھی خاموش ہے اور دوسری اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت کو روکنے کیلئے موثر ڈھنگ سے آواز بلند نہیں کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آدتیہ ناتھ حکومت کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں اور وہ مسلم دشمنی میں مزید آگے بڑھتی جا رہی ہے ۔
یو پی میں پہلے گاو کشی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ اخلاق کے قتل سے اس کا آغاز ہوا تھا ۔ پھر بے شمار واقعات پیش آئے ۔ ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل معمول بن گیا تھا ۔ پھر اینٹی رومیو اسکواڈ بناتے ہوئے نوجوان میں دہشت پیدا کی گئی ۔ لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے باضابطہ قانون بنادیا گیا ۔ سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اعظم خان نے تعلیم کے شعبہ میں مثالی کارنامہ انجام دیتے ہوئے یونیورسٹی قائم کی اور آدتیہ ناتھ حکومت کو یہ کارنامہ کھٹکنے لگا ۔ اعظم خان اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر کئی مہینوں سے جیل میں بند کردئے گئے ہیں۔ ان کے فرزند کو جیل بھیج دیا گیا ۔ ان کی اہلیہ کو جیل بھیج دیا گیا ۔ غرض یہ کہ سارے خاندان کو خاص طور پر نشانہ بناتے ہوئے جیل بھیج دیا گیا ۔ ان کے خلاف درجنوں فرضی اور مضحکہ خیز مقدمات درج کئے گئے ۔ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی آدتیہ ناتھ کی حکومت کو چین و سکون نہیں مل رہا ہے اور اب مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنانا شروع کردیا گیا ہے اور انہیں بے آسرا کرتے ہوئے ان کے گھر ڈھائے جا رہے ہیں۔ اعظم خان کے بعد اب سماجوادی پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد کے ساتھی آصف درانی کے گھر کو منہدم کردیا گیا ۔ ان پر بھی درجنوں مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ چھ ماہ سے ریاست میں مکانات کو منہدم کرنے کی کارروائی کی جا رہی ہے اور اب تک چار درجن مکانات کو حکومت نے منہدم کردیا ہے ۔ یہ صرف مسلم دشمنی اور انتقامی جذبہ ہے ۔
آدتیہ ناتھ ایسا لگتا ہے کہ جنونیت کا شکار ہوچکے ہیں اور اپنے فرقہ وارانہ منافرت کے جنون میں قانون اور دستور کی دھجیاں اڑانے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اس ملک میں مساوی مرتبہ اور حقوق حاصل ہیں۔ ملک کے دستور اور قانون نے انہیں یہ حق دیا ہے ۔ اس کو کوئی چھین نہیں سکتا ۔ آدتیہ ناتھ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ انتقامی جذبہ کو ترک کرنا چاہئے ۔ سماج اور ریاست کی ترقی پر توجہ کرتے ہوئے مثبت پالیسیاں بناکر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ فرقہ وارانہ منافرت اور مذہبی جنون کی دستوری ڈھانچہ میں کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی اور اس حقیقت کو آدتیہ ناتھ کی حکومت جتنی جلدی سمجھ سکتی ہے بہتر ہوگا اور اترپردیش کی بھی سماجی و معاشی ترقی ممکن ہوسکتی ہے ۔
