8 کروڑ روزگار کا دعوی !

   

وزیر اعظم نریندر مودی نے کل ادعا کیا کہ گذشتہ چار تا پانچ برسوں میںآٹھ کروڑ روزگار ملک میں پیدا کئے گئے ہیں اور انہوں نے اپوزیشن کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے بیروزگاری کے مسئلہ پر جھوٹا پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے اور افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ گذشتہ انتخابات میںاپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جہاں دستور کے تحفظ کیلئے مہم چلائی گئی تھی اسی طرح بیروزگاری کو بھی مسئلہ بنایا گیا تھا اور بی جے پی اپنی تمام تر کوششوںاور تشہیری حربوں کے باوجود تنہا اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہیںہوپائی تھی ۔ بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کا دعوی کرتی ہے اس کے باوجود وہ 272 لوک سبھا نشستوں پر کامیاب نہیں ہوپائی تھی ۔ اسے 240 پر ملک کے عوام نے روک دیا تھا ۔ اپوزیشن نے انتخابات کے دوران بیروزگاری کو اہم مسئلہ بنا کر پیش کیا تھا اور عوام نے اس مسئلہ کو ایسا لگتا ہے کہ قبول بھی کیا تھا ۔ جہاں تک بی جے پی یا وزیر اعظم نریندرمودی کا سوال ہے تو انہوں نے 2014 کی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کریں گے ۔ اب انہوں نے ادعا کیا کہ گذشتہ چار تا پانچ برس میں آٹھ کروڑ روزگار پیدا کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس اعلان سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سالانہ دو کروڑ روزگار کا وعدہ پورا نہیں ہوا اور کھوکھلا ثابت ہوا ہے ۔ اگر سالانہ دو کروڑ روزگار پیدا کئے جاتے تو اب تک 20 کروڑ روزگار فراہم کئے جانے چاہئے تھے جو نہیں کئے گئے ۔ اسی طرح اب اگر آٹھ کروڑ روزگار کی بات کی جائے تو وزیر اعظم کو محض ایک بات کہہ دینے پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے ۔ انہیں یہ اعداد و شمار فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ آٹھ کروڑ روزگار کہاں پیدا کئے گئے ہیں اور کس کو فراہم کئے گئے ہیں۔ اگر کوئی نوجوان خود روزگار پیدا کرتا ہے اور اپنے لئے روزی روٹی حاصل کرتا ہے تو کیا اسے بھی حکومت کے کھاتے میں جمع کیا جائیگا ؟ ۔ اس کے علاوہ کیا ان آٹھ کروڑ روزگار میں خانگی شعبہ کی ملازمتیں بھی شامل ہیں؟ ۔ اگر ایسا ہے تو پھر ان کو حکومت کے کھاتے میں کس طرح سے جمع کیا جاسکتا ہے ؟ ۔
یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں ملک میں ملازمتوں کی تعداد ہی میں کمی آئی ہے ۔ چاہے سرکاری ملازمتیں ہوں یا پھر خانگی شعبہ کے روزگار ہوں سبھی کی تعداد میں گراوٹ آئی ہے ۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جہاں سے ملازمین کی تخفیف عمل میں لائی گئی ہے ۔ کئی کمپنیوں نے باضابطہ اعلان کرتے ہوئے اپنے ملازمین کو ملازمتوں سے بیدخل کردیا ہے ۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے بھی کئی سرکاری اور عوامی شعبہ کے اداروں کو خانگی شعبہ کے حوالے کردیا گیا ۔ ایسا کرتے ہوئے تمام اداروں میں ملازمتوں میں تخفیف کی گئی ۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں ملازمین کو قبل از وقت سبکدوشی کروائی گئی تھی ۔ سرکاری ملازمتوں میں تقررات کا عمل انتہائی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جن میںکئی برسوں سے بھرتیاں نہیںکی گئی ہیں۔ جن شعبہ جات میں بھرتیاں ہوئی بھی ہیں تو وہ درکار تعداد کے مطابق نہیں ہے ۔ کئی شعبہ جات میں موجودہ ملازمین پر ہی کام کے بوجھ میںاضافہ ہوا ہے ۔ آوٹ سورسنگ کے ذریعہ کچھ شعبہ جات میں کام چلایا جا رہا ہے ۔ اس کے باوجود حکومت سرکاری تقررات کے عمل میں تیزی لانے کے موقف میں نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں اگر ملک میں گذشتہ چند برسوں میں آٹھ کروڑ روزگار فراہم کئے گئے ہیں تو ان کے اعداد و شمار عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ واضح کرنا چاہئے کہ کس شعبہ میں کتنی ملازمتیں دی گئی ہیں۔ان میںسرکاری ملازمتیں کتنی ہیں اور خانگی شعبہ میں کتنے روزگار دئے گئے ہیں۔
وزیر اعظم اس ملک کے اعلی اور جلیل القدر عہدہ پر فائز ہیں۔ انہیںمحض ایک بات کہتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ انہیں باضابطہ طور پر عوام کے سامنے تفصیل اور حقائق کو پیش کرنا چاہئے ۔ اگر واقعتا ایسا ہوا ہے تو اعداد و شمار کو عوام میںپیش کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو بیروزگاری کے مسئلہ پر سیاست کرنے سے روکا جاسکتا ہے ۔ انتخابات میں عوام نے بیروزگاری کے اپوزیشن کے دعووں کو عملا قبول کیا تھا اور بی جے پی کو قطعی اقتدار حوالے کرنے سے گریز کیا تھا ۔ اس صورت میں اپوزیشن کے الزامات میںسچائی دکھائی دیتی ہے ۔حقیقت کو آشکار کرنے تمام ملازمتوں کی تفصیل عوام میں جاری کی جانی چاہئے ۔