آج آخری مرحلہ کی رائے دہی

   

ظالم ہے ایک سمت تو مظلوم اک طرف
ہٹ دھرمیاں ہی دیکھیں نظر اب جدھر گئی
ہندوستان میں رائے دہی کا عمل آج ایک طرح سے اختتام کو پہونچے گا ۔ حالانکہ 4 جون کو ووٹوں کی گنتی کے ساتھ یہ عمل پورا ہوگا تاہم رائے دہی کا عمل آج شام پورا ہوجائے گا ۔ سات مراحل کی انتخابی مہم رہی اور ساتویں مرحلہ ہی میں یکم جون کو ووٹ ڈالے جانے والے ہیں۔ چھ مراحل میں ہندوستان کے کروڑوں عوام نے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے ملک کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کردیا ہے ۔ ووٹنگ مشینوں میں سیاسی جماعتوں اورا میدواروں کی قسمت کا فیصلہ بند ہوگیا ہے ۔ آج ساتویں مرحلہ میں مابقی نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے اور پھر تمام سات مراحل کی پولنگ کی گنتی 4جون منگل کو ہوگی ۔ چھ مراحل میں رائے دہی کے بعد ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے سیاسی امکانات کا جائزہ لینے میں مصروف ہے اور آج ساتویں مرحلہ کی پولنگ کے بعد شام سے ایگزٹ پولس کا اعلان بھی ہوجائے گا ۔ ساتویں مرحلہ میں بھی جو نشستیں بچی ہوئی ہیں جن کیلئے کل ووٹ ڈالے جانے ہیں ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے ۔ آٹھ ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کی 57 نشستوں کیلئے یکم جون کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ جتنی شدت اور جارحانہ تیور کے ساتھ انتخابات 2024 میں مقابلہ کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آخری مرحلہ کی 57 نشستیں بھی فیصلہ کن ہوسکتی ہیں۔ انڈیا اتحاد اور این ڈی اے اتحاد کے مابین اقتدار کیلئے جو دوڑ دھوپ ہوئی ہے اس میں آخری مرحلہ کی رائے دہی اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے اور یہ نشستیں انتہائی اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ ایسے میں آخری مرحلہ میں جن نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے جانے ہیں ان کے ووٹرس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی بصیرت اور ہوش و حواس کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ ان کا ووٹ ملک کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کرے گا اور ان کے ووٹ کے ذریعہ ہی آئندہ پانچ سال کی حکمرانی کا تعین ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں رائے دہندوں کو مذہبی استحصال کا شکار ہوئے بغیر ‘ جذباتی مسائل میں الجھے بغیر ملک اور قوم کی بہتری اور فلاح کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔
ابتداء کے تمام چھ مراحل کی طرح ساتویں مرحلہ کیلئے بھی جو انتخابی مہم چلائی گئی تھی وہ انتہائی منفی سوچ و فکر کے ساتھ رہی تھی ۔ اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے عوام کو الجھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ مندر ۔ مسجد ‘ ہندو ۔ مسلم جیسے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے رائے دہندوں کے مذہبی استحصال کی کوشش کی گئی تھی ۔ قوم کے سامنے گذشتہ دس برس کی حکمرانی کا حساب کتاب پیش نہیں کیا گیا ۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کارپوریٹ دوستوں کے کتنے لاکھ کروڑ کے قرض معاف کئے گئے ۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ کسانوں کے قرض کیوں معاف نہیں کئے گئے ۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ سالانہ دو کروڑ نوکریوں کے وعدہ کو کیوں پورا نہیں کیا گیا ۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ بیرونی ممالک سے کالا دھن کیوں واپس نہیں لایا گیا ۔ یہ بھی نہیں کہا گیا کہ مہنگائی پر قابو پانے اور کمی کرنے کا وعدہ تھا لیکن مہنگائی آسمان کو کیوں چھونے لگی ہے ۔ پٹرول ‘ ڈیزل اور پکوان گیس پر بھاری لوٹ کیوں مچائی گئی ۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح کیوں بڑھتی جا رہی ہے اور نوکریوں کی تعداد میں کمی کیوں آتی جا رہی ہے ۔ سرکاری محکمہ جات میں لاکھوں تقرر طلب عہدوں پر بھرتیاں کیوں نہیں کی جا رہی ہیں ؟ ۔ یہ سارے سوالات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور حکمران جماعت اور اس کے ذمہ داروں نے ان مسائل پر بات کرنے کی بجائے منگل سوتر چھین جانے کا خود پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ سماج کے اہم طبقات کے مابین خلیج پیدا کرنے پر ساری توجہ مرکوز کی گئی تھی ۔
ساتویں مرحلہ کیلئے بھی اسی طرح کی مہم چلائی گئی تھی ۔ جو رپورٹس اور اطلاعات ہیں ان میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس طرح کی منفی مہم کو ملک کے عوام اور ووٹرس نے مسترد کردیا ہے ۔ عوام چاہتے تھے کہ بنیادی مسائل پر بات چیت ہو ۔ ان کو درپیش چیلنجس سے نمٹنے کی حکمت عملی پیش کی جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ اسی طرح ساتویں مرحلہ کے رائے دہندوں کیلئے بھی ضروی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا سوچ و فکر کے ساتھ استعمال کریں۔ ان کا ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ۔ ملک کا مستقبل طئے کرنے والا ووٹ ہے ۔ ایسے میں جذباتیت کا شکار ہونے کی بجائے ملک اور قوم کے مستقبل میں تعمیری رول ادا کرنے ووٹ کا استعمال ہونا چاہئے ۔