آزادی کے بعد 2020 بدترین سال

   

ٹی این نینان
جاریہ سال کا یہ آخری ہفتہ ہے جبکہ آزادی کے بعد گزشتہ سال بدترین ثابت ہوا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کووڈ ۔ 19 ہی نہیں تھی۔ دوسرا واحد سال جو یاد آرہا ہے 1975 ہے جس کے دوران 2 سال سیاسی بے چینی کی وجہ سے آمرانہ حکومت مسلط کردی گئی تھی اور دستور معطل کردیا گیا تھا۔
21 ماہ کے صدمہ انگیز حالات کے بعد جبکہ معاشی ڈراونا پن بھی پیدا ہوگیا تھا۔ 1960 کی دہائی کے وسط میں 1991 بدترین سال تھا لیکن 1965 کی پاکستان کے ساتھ جنگ کے نتیجہ میں دگنی خشک سالی کی وجہ سے ملک گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ کرنسی کی قیمت کم کردی گئی تھی اور اسے امریکی غذا کا تکمیلہ سمجھا جانے لگا تھا۔ بہار میں قحط پڑ جانے کی وجہ سے بھوکے شہریوں کو کھانا کھلانے کے لئے امریکی غذائی اشیاء درآمد کی جارہی تھیں۔ فیکس آمدنی عملی اعتبار سے 1970 کی دہائی تک جمود کا شکار ہوگئی تھی۔ اس کے بعد آئندہ 10 سال کا آغاز ہوا۔
1960 کی دہائی کے غذائی بحران کے نتیجہ میں سبز انقلاب شروع ہوا اور 1970 کی دہائی میں پہلا کمزور دالوں کے نتیجہ میں معاشی اصلاحات ضروری ہوگئی تھیں۔ فوری طور پر 2020 نسبتاً بہتر رہا۔ ہمیں حیرت ہے کہ اخر میں خیرسگالی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہندوستان فی الحال بہتر مقام پر ہے جبکہ 50 سال قبل مسلسل کئی بحرانوں کی وجہ سے حالت ابتر ہوگئی تھی۔ اس لئے ملک کو خانگیانے سے بچانے کے لئے کئی مسائل پیدا ہوگئے تھے جو لاک ڈاون کے دوران ابھر آئے تھے اور اس کے بعد ویکسین کا چیالنج درپیش ہوئے تاکہ مہلک وائرس کی وجہ سے کئی اموات کا سلسلہ روکا جاسکے۔ معاشی صورتحال کو آئندہ چند برسوں میں مستحکم کرلیا جائے گا لیکن 40 سال میں پہلی بار ملک کی معیشت سکڑنے لگی ہے۔ دہلی میں پہلا بڑے پیمانے پر مابعد تقسیم فساد ہوا (جو 1984 میں ہوا تھا وہ نسل کشی کا فساد نہیں تھا)۔ اس فہرست میں مساوی طور پر پریشان کن اور زیادہ خاموش بحران کو بھی شامل کرلینا چاہئے۔ تازہ ترین قومی خاندانی صحت سروے سے جو انکشافات ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ معاشی فروغ سے کسے فائدہ پہنچا اس کا فوری جواب دیا جانا چاہئے۔
سپریم کورٹ کے گزشتہ سال رام جنم بھومی مقدمہ کے فیصلے سے یہ پیغام ملا کہ اس میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ ہر شخص کو بابری مسجد کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
ملک میں اس صدی کی تیسری دہائی میں داخلہ کے وقت ایک بات بالکل واضح ہے کہ ملک کے محکموں اور سرچشمہ وجدان کی کیا کیفیت ہے۔ وسائل اور ذخائر زبردست مشکل دباؤ کے تحت ہیں۔ حکومت دلیل دے سکتی ہیکہ اس نے اپنی پالیسیاں بڑی محنت سے تیار کی ہیں جن میں مسائل بھی شامل کئے گئے ہیں جنہیں معاشی اصلاحات کے ذریعہ بحران کے دنوں میں بھی نمٹا جاسکتا ہے لیکن کرناٹک کے کارخانہ میں اجرت کی عدم ادائیگی سے ہمیں یاد آتی ہے کہ سرمایہ دار عناصر اپنے بہتر قوانین اور نظرانداز کرنے کی بنا پر موجودہ صورتحال سے بہتر تھے۔
دریں اثناء احتجاج کرنے والے کسانوں کا اٹل موقف جنہیں اندیشہ ہے کہ ان کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہے اور مخالف کرپشن احتجاج 2011 کی بہ نسبت زیادہ واضح ہے۔ پوشیدہ مسئلہ حکمرانوں اور ان کے ماتحتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ چنانچہ وقت کا تقاضہ ہے کہ گزشتہ 30 سال کی سب سے طاقتور حکومت اپنے طور پر ان وعدوں کی یاددہانی کررہی ہے جو اس نے کئے تھے یعنی اچھے دن اور اچھی حکمرانی اور ہر ایک کے لئے یکساں ترقی۔