!اب ٹیلیفون بھی محفوظ نہیں

   

چمن پر بجلیاں منڈلا رہی ہیں
کہاں لے جاؤں شاخ آشیانہ
!اب ٹیلیفون بھی محفوظ نہیں
ٹکنالوجی اپنے ساتھ اچھی تبدیلی لاتی ہے لیکن اس کے منفی اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اب اسرائیلی ایجنسیوں کی جانب سے دنیا بھر کے سینکڑوں افراد کی جاسوسی کی اطلاعات عام ہوگئی ہیں اور خود سوشیل میڈیا ایپ واٹ اپ نے بھی اعتراف کرلیا ہے کہ اس ایپ کے ذریعہ سینکڑوں ہندوستانیوں کی جاسوسی کی گئی ہے ۔ ان کے فون نمبرات کے ذریعہ ‘ ان کے کالس اور پیامات وغیرہ پر خفیہ نظر رکھی جا رہی تھی ۔ واٹس ایپ کی جانب سے خود اپنے صارفین کو پیام دیتے ہوئے مطلع کیا جا رہا ہے کہ ان کے فون تک جاسوسی ایجنسیوں کی رسائی ہوئی ہے ۔ حالانکہ واٹس ایپ اپنے صارفین کی رازداری کو برقرار رکھنے کی بات اور عہد کو دہراتا ہے لیکن یہ تیقن بے معنی ہی ہے کیونکہ جن خفیہ ایجنسیوں کو یہ سب کچھ کرنا تھا وہ کرگذری ہیں۔ اب یہ پتہ نہیں ہے کہ کس کس کی جاسوسی کس کس حد تک کی گئی ہے اور کس کو نشانہ بنانا اس ساری کارروائی کا مقصد تھا ۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کے وکلا ‘ صحافیوں ‘ سیاستدانوں اور سیاسی و سماجی جہد کاروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ان پر نظر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جو رازداری کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ جہاں تک مرکزی حکومت کا سوال ہے حالانکہ اس میں راست اس کا کوئی رول نظر نہیں آتا لیکن حکومت محض واٹس ایپ یا دیگر سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کو کچھ ہدایات دیتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ ملک کے ہر شہری اور اس کی رازداری کے حق کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کا فریضہ ہے لیکن ہماری موجودہ حکومت ایسی ذمہ داریوں سے مسلسل پہلو تہی کرتی آر ہی ہے ۔ سوشیل میڈیا اداروں سے جواب طلب کرتے ہوئے حکومت خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اور حکومت کو ایسے پلیٹ فارمس کے تعلق سے سخت گیر موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت خود اپنے شہریوں کے موبائیل فونس تک رسائی رکھتی ہے اور سبھی پر نظر رکھی جا رہی ہے ۔ یہ عمل بجائے خود قابل اعتراض کہا جاسکتا ہے ۔
ایسے میں اگر بیرونی جاسوسی ایجنسیاں بھی ہندوستانی شہریوں کے موبائیل فونس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو یہ ایک بڑا سنگین خطرہ اور اسکینڈل ہے ۔ سیاسی گوشوں میں اس اطلاع سے سنسنی پیدا ہوگئی ہے اور حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کے قائدین کو نشانہ بناتے ہوئے ایسا کیا گیا ہے ۔ آج کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کے فون تک خفیہ ایجنسیوں کی رسائی کی بات سامنے آئی ہے ۔ اس سے قبل چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی نے بھی دعوی کیا تھا کہ ان کا فون ٹیپ کیا جا رہا ہے ۔ حیدرآباد کے ایک وکیل کے فون تک جاسوسی ایجنسیوں نے رسائی حاصل کرلی تھی ۔ یہ وکیل بھی کئی سیاسی قائدین کیلئے کام کرتے ہیں۔ کئی صحافیوں کے فونس بھی اب محفوظ نہیں سمجھے جانے لگے ہیں۔ یہ ساری صورتحال انتہائی افسوسناک ہے اور اس پر حکومت کو فوری حرکت میں آنے کی اور سب سے پہلے اپنی ذمہ داریوں میں ناکامی کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر اسی طرح سے عوام کے موبائیل فونس تک رسائی حاصل کی جاتی رہی اور اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کی جاتی رہی تو یہ انتہائی سنگین صورتحال والی بات ہوگی ۔ اگر ہندوستان کے موبائیل نیٹ ورکس تک بیرونی جاسوسی ایجنسیاںرسائی حاصل کرلیتی ہیں تو یہ محض چند فونس تک پہونچنے کی بات نہیں ہے بلکہ سارے ملک کی سکیوریٹی پر بھی سوال ہے ۔
ملک میں وقفہ وقفہ سے حکومت کی جانب سے جو فیصلے کئے جاتے ہیں ان کی وجہ سے ہی تشویش پائی جاتی ہے ۔ حکومت جب چاہے جس کا چاہے فون ٹیپ کرسکتی ہے ۔ اس کے پیامات تک رسائی حاصل کرسکتی ہے اور ان کی بنیادوں پر انہیں نشانہ بھی بناسکتی ہے ۔ اکثر و بیشتر سیاسی قائدین کی جانب سے الزامات عائد کئے جاتے ہیں کہ حکومتیں اپوزیشن قائدین کے فونس ٹیپ کرتی ہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر حکومت کو ایک جامع ایکشن پلان کے ساتھ کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ جن سوشیل میڈیا ایپس پر ایسی جاسوسی ہوئی ہے انہیں جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے اور جن ایجنسیوں نے چھیڑ چھاڑ یا جاسوسی کی ہے ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت محض بیان بازیوں پر اکتفاء کرتی ہے تو اس سارے معاملہ میں اس کے رول کے تعلق سے بھی شبہات کو تقویت حاصل ہوگی۔