اترپردیش بی جے پی میں بے چینی

   

ہم اتنی مرتبہ گزرے ہیں آزمائش سے
وہ سیدھی بات بھی پوچھے تو امتحاں ہی لگے
ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ایک طرح سے سیاسی بے چینی اور اتھل پتھل والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ اترپردیش وہ ریاست ہے جو ملک کی سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ ملک میں سب سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ اسی ریاست سے منتخب ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دہلی کے اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گذرتا ہے ۔ اب جبکہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اترپردیش میں سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسی وجہ سے اسے مرکز میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہوسکی تھی ۔ انتخابی نتائج کے بعد سے اترپردیش کی سیاست میں ایک طرح کی بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور سب سے زیادہ اضطراب بی جے پی کے حلقوں میں محسوس کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی قائدین ایک دوسرے کو اس شکست کیلئے ذمہ دار قرار دینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ابتداء میں دبی دبی مخالفتیں ایسا لگتا ہے کہ اب کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ جہاں بی جے پی کیلئے حالات دگرگوں از خود ہو رہے تھے وہیںسماجوادی پارٹی سربراہ اکھیلیش یادو کی جانب سے بی جے پی قائدین کو کی گئی پیشکش نے بھی مزید الجھن اور بے چینی پیدا کردی ہے ۔ بی جے پی کے قائدین پہلے ہی چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کی حکمرانی اور ان کے طرز کارکردگی سے ناراض تھے ۔ وہ دبے دبے الفاظ میں اس کا اظہار بھی کر رہے تھے تاہم لوک سبھا انتخابات کی شکست نے ان کی زبان کو تقویت دیدی ہے ۔ اب وہ کھل کر اس کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا کی جانب سے طلب کردہ اجلاس میں کئی قائدین نے چیف منسٹر کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے طرز کارکردگی کو شکست کی وجہ قرار دیا ہے ۔ چیف منسٹر کے خلاف شکایت کرنے والوں میں ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ اور دوسرے قائدین شامل ہیں جنہوں نے پارٹی ہائی کمان پر زور دیا ہے کہ وہ حالات کو بہتر بنانے کیلئے اسمبلی انتخابات تک کا انتظار نہ کریں بلکہ فوری طور پر عملی اقدامات کا آغاز کریں۔ جہاں تک چیف منسٹر کی بات ہے تو ابھی تک انہوں نے اس مسئلہ پر کھل کر اظہار خیال نہیں کیا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ چیف منسٹر کے طرز کارکردگی کی وجہ سے ہی اترپردیش جیسی ریاست میں بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ چیف منسٹر طاقت اورا قتدار کے نشہ میں بات کر تے ہیں اور اسی کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں۔ اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر نہیں ہے ۔ وہاں لا قانونیت کو سرکاری سطح پر فروغ دیا جا رہا ہے ۔قانون کے مطابق کام کرنے کی بجائے مختلف بہانوں سے بلڈوزر راج چلایا جا رہا ہے ۔ بے شمار بستیاں تہس نہس کی جا رہی ہیں اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے ۔ عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کی پالیسی پر عمل کرنے کی بجائے فرقہ پرستی کو سرکاری پالیسی کے طور پر اختیار کیا جا رہا ہے ۔ قانون اور دستور کے مطابق سماج کے تمام طبقات کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کی بجائے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے ۔ا قلیتوںا ور خاص طور پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ ان کے خلاف منظم انداز سے کام کیا جا رہا ہے ۔ کچھ مقامات پر ان کا سماجی مقاطعہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ہجومی تشدد جیسے واقعات وہاں عام ہونے گلے ہیں۔ اس صورتحال پر قابو پانے کی بجائے تنگ نظری اور متعصب ذہنیت کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے ۔ ریاست میں ڈنڈا راج عام ہوگیا ہے ۔ سیاسی مخالفین کو بھی برداشت کرنے حکومت تیار نہیں ہے ۔ اس صورتحال سے ریاست کے عوام خود بیزار نظر آتے ہیںاور انہوں نے اپنی بیزارگی کا اظہار لوک سبھا انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعہ کر بھی دیا ہے ۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ ٹہرے ہوئے پانی میں کنکر مارنے سے لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم اترپردیش میں پہلے سے مرتعش پانی میں سماجوادی پارٹی سربراہ اکھیلیش یادو نے سیاسی کنکر پھینک دیا ہے اور انہوں نے بالواسطہ طور پر ارکان اسمبلی کو بی جے پی سے دوری اختیار کرنے اور سماجوادی پارٹی کی تائید سے حکومت تشکیل دینے کی دعوت بھی دیدی ہے ۔ یہ ایک سیاسی حربہ کہا جاسکتا ہے جس کا مقصد بی جے پی کی بے چینی اور اضطراب کو مزید تقویت دینا ہے ۔ جو داخلی اضطرات کی کیفیت چل رہی ہے وہ بی جے پی کے سیاسی مفادات کیلئے فیصلہ کن ثابت ہوسکتی ہے اور اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی لوک سبھا انتخابات کی طرح ہوسکتے ہیں۔