اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر

   

Ferty9 Clinic

کرتے ہیں اپنا حال بیاں کم بہت ہی کم
خاموشیوں سے میری سمجہہ لیں وہ اس قدر
اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر
اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کے تعلق سے مختلف رپورٹس میںمختلف حقائق کا انکشاف ہوتا رہتا ہے ۔ جہاں ایک طرف ریاستی حکومت کی جانب سے بارہا یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اترپردیش کو جرائم سے پاک بنانے کیلئے مسلسل جدوجہد کی جا رہی ہے اور مجرم پیشہ افراد کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے ۔ جس وقت ریاست میں آدتیہ ناتھ نے چیف منسٹر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تھی ریاستی پولیس کو وسیع تر اختیارات دئے گئے تھے جس کے نتیجہ میں ریاست میں ایک سے زائد انکاونٹرس ہوئے اور کچھ افراد کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا گیا تھا ۔ جب انکاونٹرس کے تعلق سے حکومت سے سوال کیا گیا تو اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ مجرم پیشہ افراد کے تعلق سے سخت گیر رویہ ضروری ہے تاکہ لوگوں کو پرسکون زندگی فراہم کی جاسکے لیکن ریاست کی حقیقی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے ۔ اب بھی ریاست میں مجرم پیشہ افراد دھڑلے سے گھوم رہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ اگر کسی ہسٹری شیٹر کے گھر پر دھاوا کیا جاتا ہے تو وہاں سے پولیس پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور 8 پولیس اہلکار مارے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ دوسرے زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔ اترپردیش پولیس کی کارکردگی بھی اکثر و بیشتر مشکوک ہوتی ہے ۔ یو پی پولیس کی موجودگی میں اس طرح کے جرائم ہوتے ہیں کہ پولیس اس کا جواب تک نہیں دے پاتی ۔ چند دن قبل ہی ایک پولیس اسٹیشن میں ایک ملزم کا قتل کردیا گیا تھا ۔ اس پر اعلی پولیس عہدیداروں کی جانب سے ماتحت عملہ کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بجائے ان کے دفاع کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جب پولیس اہلکار خود غنڈہ گردی کرتے ویڈیو میں دیکھے گئے تھے لیکن پولیس عہدیداروں کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے ان کے دفاع کی زیادہ کوشش کی گئی تھی جس کے نتیجہ میں پولیس میں احساس ذمہ داری بالکل ہی ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔ پولیس فورس کو مستعد اور متحرک بنانے کے ریاستی حکومت کے دعوے بالکل کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں اور ان میں کسی طرح کی سچائی نظر نہیں آتی ۔
آج کانپور میں ایک انکاونٹر ہوتا ہے اور وکاس دوبے نامی مجرم کے گھر پر چھاپا مارنے پر وہاں سے فائرنگ ہوتی ہے اور آٹھ پولیس ملازم ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک انکاونٹر ہی اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحا ل کی صحیح عکاسی کرنے کیلئے کافی ہے ۔ وہاں مجرمین کا قلع قمع کرنے ریاستی حکومت کے دعووں کی قطعی اسی ایک انکاونٹر سے کھل جاتی ہے ۔ آج بھی اترپردیش میں جرائم پیشہ افراد دھڑلے سے گھوم رہے ہیں اور اپنی خلاف قانون سرگرمیوں کو پوری شدت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اترپردیش پولیس کا خوف ان میں برائے نام بھی نہیں رہ گیا ہے اسی لئے انہیں گولیوں سے نشانہ بنانے سے بھی مجرمین گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اترپردیش میں پولیس محکمہ کے کام کاج میں سرکاری مداخلت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے اور اسی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ اپنی سرگرمیوں کو کسی روک ٹوک کے بغیر جاری رکھ پاتے ہیں۔ سیاسی مداخلت ایک سنگین مسئلہ ہے اور حکومتوں کو اس کا سختی سے نوٹ لینے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش میں پولیس محکمہ حکومت کی ایماء پر کم اور سیاسی مداخلت کے ذریعہ زیادہ کام کرتا ہے جس کا نتیجہ انکاونٹر کی شکل میں سامنے آ رہا ہے ۔ سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہی پولیس کے اعلی عہدیداروں سے جواب طلبی بھی ممکن نہیں ہو پا رہی ہے جبکہ جواب طلبی ضروری ہے ۔
وقفہ وقفہ سے اترپردیش میں پیش آنے والے واقعات سے سارا ملک واقف ہے کہ کس طرح وہاں قانون کی دھجیاںاڑائی جاتی ہیں۔ کہیں جرائم پیشہ افراد سرگرم ہوتے ہیں تو کہیں خود پولیس عہدیدار قانون کی دھجیاں اڑانے سے گریز نہیں کرتے اور وہ من مانی انداز میں کام کرتے ہیں۔ نیشنل کرائم بیورو کے اعداد و شمار اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ تقریبا ہر جرم میں اترپردیش ملک کی دوسری تمام ریاستوں سے سر فہرست ہے ۔ چاہے قتل ہو ‘ اقدام قتل ہو ‘ عصمت ریزی ہو ‘ اغواء ہو ‘ تاوان کی وصولی ہو یا پھر کوئی اور جرم ہو ہر معاملے میں اترپردیش سر فہرست ہے ۔ ریاستی حکومت کو صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے اور جرائم پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ واقعی جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کو روکا جاسکے اور عوام کو پرسکون ماحول فراہم کیا جاسکے۔