اترکھنڈ کے اترکاشی میں کل جو سانحہ پیش آیا وہ انتہائی تباہ کن کہا جاسکتا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ سارا کا سارا ایک گاوں ہی اس واقعہ میں ختم ہوگیا ہے یا دفن ہوگیا ہے ۔ یہاں بادل پھٹ پڑنے اور مٹی کے تودے کھسکنے کے معاملات میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ درجنوں افراد لاپتہ بتائے گئے ہیں جن میں کم از کم 10 ہندوستانی سپاہی بھی شامل ہیں۔ فوجی کیمپ بھی اس تباہی کی زد میں آگیا تھا ۔ کہا گیا ہے کہ ایک مکمل گاوں اس واقعہ میں پوری طرح سے تباہ ہوگیا ہے ۔ کئی مکانات تہس نہس ہوگئے ہیں اور کئی افراد کے ملبہ کے نیچے دبے ہونے کے شبہات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ جو حقیقی تباہی ہوئی ہے اس کا پتہ اتنی جلد چلنا ممکن نہیں ہے ۔ یہاں بچاؤ اور راحت کاری کے کام شروع کردئے گئے ہیں اور جب تک ملبہ کی صفائی نہیں ہوتی اور راحت کاری کے کام مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک حقیقی تباہی یا نقصانات کا تخمینہ یا اندازہ کرنا مشکل ہی رہے گا ۔ ایسا نہیں ہے کہ اترکھنڈ میں اس طرح کا یہ پہلا واقعہ پیش آیا ہو ۔ اترکھنڈ کے کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں تقریبا ہر سال بارش کے موسم میں یا وقفہ وقفہ سے اس طرح کی صورتحال پیش آتی ہے ۔ شدید بارش کے نتیجہ میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہوتی ہے ۔ کبھی بادل پھٹ پڑتے ہیں تو کبھی دریاوں میں طغیانی کی وجہ سے تباہی آتی ہے ۔ اس طرح کے تمام معاملات میں صرف ریاست کے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جانی و مالی نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔حکومت کی جانب سے ساری تباہی کے بعد کچھ امدادی اور راحت کے کام شروع کئے جاتے ہیں اور پھر معمول کے کام کاج بحال ہوجاتے ہیں۔ یہاں جو تباہی آتی ہے اس کی بنیادی جوہات کا پتہ نہیں چلایا جاتا ۔ اس کے کیا کچھ عوامل ہوسکتے ہیں ان کا جائزہ نہیں لیا جاتا ۔ عوام کو اس طرح کی صورتحال سے ہر چند ماہ میں تماثر ہونے سے بچانے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ۔ مسئلہ کی جڑ تک پہونچنے کی کوششیں بھی نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں وقفہ وقفہ سے اس طرح کی تباہ کاریاں ہوتی رہتی ہیں اور ان کا کوئی سدباب نہیں کیا جاتا ۔
اترکھنڈ اور اترکاشی کا جو جغرافیائی محل وقوع ہے وہ اس طرح کے واقعات اور سانحات کی وجہ قرار دیا جاتا ہے ۔ یہاں کی ساری جغرافیائی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اس طرح کے حالات کو ٹالنے یا ایسے واقعات کی صورت میں امکانی طور پر نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ۔ صرف کچھ راحت اور امدادی کام کرتے ہوئے اور عوام کی کچھ مالی مدد کرتے ہوئے حکومت بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے اور پھر آئندہ سال اسی طرح کی صورتحال پیش آنے کے اندیشے لاحق رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کو اس طرح کے معاملات کا سنجیدگی سے نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ ان کی وجوہات کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے ۔ جغرافیائی حالات کو خاص طور پر نظر میں رکھا جانا چاہئے ۔ اب تک جوکچپ بھی واقعات اور حادثات وغیرہ پیش آئے ہیں ان کی تفصیلات کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے ۔ ماہرین کی رائے حاصل کی جانی چاہئے ۔ ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کے اقدامات پر توجہ کی جانی چاہئے ۔ عوام کو ہر سال اس طرح کی صورتحال اور حالات سے بچانے کے مقصد کے ساتھ کام کیا جانا چاہئے ۔ ایسے کچھ اقدامات کئے جانے چاہئیں جن کے نتیجہ میں سیلاب اور شدید بارش کی صورت میں جانی و مالی نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے اور عوام کے سروں پر مستقل جو خطرہ منڈلا رہا ہے اس کو ٹالا جاسکے ۔
کچھ وقت قبل کیرالا کے وائیناڈ میں بھی تقریبا اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوئی تھی ۔ وہاں بھی مٹی کے تودے گرنے کی وجہ سے شدید جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اترکھنڈ میں پہلے بھی اس طرح کے حالات پیش آچکے ہیں۔ ایسے میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کا حل دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ عوام کو محض حالات کی مار سہنے کیلئے نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ جانی و مالی نقصانات کو ٹالنے کیلئے جامع منصوبہ بندی کی جانی چاہئے ۔ بجٹ مختص کیا جانا چاہئے اور پھر امکانی حادثات کی صورت میں نقصانات کو کم سے کم کرنے کے مقصد کے ساتھ اقدامات کئے جانے چاہئیں۔