ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
احتجاج کرنے والے غدار نہیں
شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں ۔ دہلی ، ممبئی ، بنگلور ، چینائی ، حیدرآباد ، لکھنو اور دیگر کئی بڑے شہروں میں دھرنے ہورہے ہیں ۔ ان جلسوں کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر کے خلاف بننے والے قومی اتحاد سے حکمراں بی جے پی پر بظاہر کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے لیکن بی جے پی کے داخلی ذرائع نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ مخالف سی اے اے احتجاج نے مودی حکومت کو ساری دنیا میں ایک ظالم حکومت کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے ۔ جلسوں میں شریک افراد وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں ۔ مودی اور شاہ سے آزادی کے نعرے کہیں شدت سے لگ رہے ہیں ۔ ایسے ہی نعروں اور مظاہروں کے حوالے سے پولیس نے احتجاجیوں کے خلاف ملک دشمن عناصر قرار دے کر غداری کے مقدمات درج کیے ۔ ایک مقدمہ میں ممبئی ہائی کورٹ (آورنگ آباد بنچ ) نے اہم فیصلہ میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت منظورہ حکم کو کالعدم قرار دیا ۔ ممبئی ہائی کورٹ کے جسٹس ایم جی سیولیکر اور جسٹس ٹی وی فلاوارے پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے احتجاج کرنے والے ضلع بیڑ کے مجلگاؤں کے شہری افتخار ذکی شیخ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے احتجاجی افراد کو غدار یا مخالف قوم قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ عدالت نے احتجاجیوں کو غداری کے مقدمہ میں پھنسانے کے خلاف اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے صاف کہدیا کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے ۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو غدار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ججس نے تاریخ ہندوستان کے حوالے سے یہ بات بھی یاد دلائی کہ ہندوستان کو آزادی بھی احتجاج کے ذریعہ ہی حاصل ہوئی ہے ۔ ہندوستانی عوام نے انگریزوں کے تسلط کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہندوستان کو آزادی دلائی تھی ۔ اب افسوس اس بات کا ہے کہ ہندوستانی عوام کو اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا پڑرہا ہے ۔ ممبئی کے آزاد میدان سے لے کر دہلی کے شاہین باغ ، پٹنہ کے سبزی باغ ، لکھنو کے گھنٹہ گھر تک کے احتجاج نے سارے ملک جو جگادیا ہے ۔ کوئی شہری کسی کالے قانون کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرے تو دستور اس کو احتجاج کرنے کا حق دیتا ہے اور یہی جمہوری ہندوستان کی شان ہے مگر مودی حکومت نے ہر اس احتجاج کو کچلنے کی کوشش کردی ہے جو اس سے لائے گئے سیاہ قوانین کو مسترد کردیا ہے ۔ بی جے پی قائدین نے چند لوگوں کے ووٹ لے کر اقتدار حاصل کر کے یہ غلط فہمی پیدا کرلی ہے کہ وہ اب اختیار کل کی مالک ہے ، کچھ بھی کرسکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ دستور اور جمہوری اصولوں کے خلاف اٹھنے والا ہر قدم پیچھے ہٹا دیا جائے گا ۔ فی الحال مودی حکومت اور اس کی تابعداری کرنے والی پولیس نے احتجاجیوں پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں غداری کے کیس میں پھانسنا شروع کیا ہے ۔ بیدر میں ایک اسکول ڈرامے میں حصہ لینے والے 11 سال کی طالبہ اور اس کی بیوہ ماں پر غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا ۔ اسکول کی ہیڈ مسٹریس کو بھی گرفتار کرلیا گیا ۔ 11 دسمبر 2019 کو پارلیمنٹ میں منظورہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو کرناٹک میں ہی 194 غداری کے مقدمات میں ماخوذ کیا گیا لیکن اس سے ہٹ کر ملک بھر میں اس سے پہلے بھی غداری کے کیس دائر کئے جاچکے ہیں ۔ سال 2017-18 میں ہی غداری کے کئی کیس درج کئے گئے تھے جو مودی حکومت کے خلاف اظہار خیال کی پاداش میں تھے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو ( این سی آر پی ) کے ڈیٹا کے مطابق 3 سال کے دوران 156 غداری کے کیس درج ہوئے ہیں ۔ ان تمام حقائق کے درمیان سی اے اے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شدت سے جاری ہے ۔ ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں سے لے کر بڑے شہروں تک ایک آواز آرہی ہے کہ سی اے اے کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ جھارکھنڈ کا لتھیر علاقہ ہو یا اترپردیش میں اعظم گڑھ یا پھر دہلی اور ممبئی جیسے میٹرو شہر ہوں کئی احتجاج مارچ نکالے جارہے ہیں ۔ ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف لگائے گئے ہزاروں غداری کے کیسوں کو فوری واپس لیا جانا چاہئے ۔۔