اخلاق سے عاری سیاست کا فروغ

   

جو دل میں اخلاق کے جذبے تلاش کرتے ہیں
انہیں خلوص سے سجدے تلاش کرتے ہیں
پارلیمنٹ کی سیڑھیوںپر ارکان پارلیمنٹ کی دھکم پیل اور پھر مقدمات کے اندراج اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات نے یہ واضح کردیا ہے کہ اس ملک کی سیاست میں اخلاق و اقدار کا فقدان ہوتا جا رہا ہے ۔ جن افراد کو عوام کیلئے مثال بننا چاہئے اور اپنے عمل سے لوگوں کیلئے نظیر قائم کرنی چاہئے وہی لوگ اپنے عمل سے لوگوں کیلئے بری مثال قائم کرنے لگے ہیں اور ہندوستان کی سیاست میںجو اخلاقیات اور اقدار ہوا کرتے تھے ان کو پامال کرتے ہوئے انتہائی اوچھی قسم کی سیاست کرنے لگے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید یا طنز کرنے کیلئے اس طرح کی زبان اورا لفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے جو شائستہ نہیں کہے جاسکتے ۔ ایسے الفاظ اور ایسی زبان کے استعمال سے ہر کسی کو گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہماری سیاست میں یہ سب کچھ عام ہوتا جا رہا ہے ۔ جو لوگ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں جیسے اداروں تک پہونچ گئے ہیں وہ بھی اخلاقیات کا درس فراموش کرچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے احاطہ میں کل جو واقعات پیش آئے ہیں وہ انتہائی نازیبا اور افسوسناک ہیں۔ اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ محض سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کیلئے سارا ڈرامہ رچا جا رہا ہے ۔ نازیبا اور نامناسب ریمارکس کرنے والوں کو کسی طرح کا پچھتاوا نہیں ہے اور ان کی سیاسی پارٹی اور حکومت کے ذمہ داران تک ایسے ریمارکس کرنے والوں کی مدافعت کیلئے میدان میں کو د پڑے ۔ ملک کے وزیر اعظم نے خود اس معاملے میں وزیر داخلہ امیت شاہ کی مدافعت کی ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ریمارکس کے ذریعہ دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی ہتک کی ہے ۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ملک کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں کئی مہینوں سے تشدد چل رہا ہے ۔ سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں مکانات ود وکانات کو نذر آتش کردیا گیا ہے لیکن آج تک وزیر اعظم نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا لیکن وہ ڈاکٹر امبیڈکر کے خلاف منفی ریمارکس کرنے والے وزیر داخلہ امیت شاہ کی مدافعت کیلئے فوری میدان میں کود پڑے ہیں۔ صورتحال کو تھامنے اور بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔
محض سیاسی مخالفت کی وجہ سے کانگریس لیڈر و قائدا پوزیشن راہول گاندھی کو نشانہ بنانے میں ساری بی جے پی جٹ گئی ہے ۔ قائد اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں داخلہ سے روکا گیا اور جو دھکم پیل ہوئی اس کو بہانہ بناتے ہوئے راہول گاندھی کے خلاف مقدمہ درج کروادیا گیا ۔ سیاسی مخالفت میں نظریاتی اختلاف ضرور ہونا چاہئے لیکن کسی کی شخصیت کو نشانہ بنانے کیلئے ایسا کرنا درست نہیں کہا جاسکتا ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ جو واقعہ کل پارلیمنٹ کے احاطہ میں پیش آیا ہے اس کو کس وجہ سے رچا گیا تھا اور کس وجہ سے اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کس طرح سے ڈاکٹر امبیڈکر کی ہتک کے بنیادی مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اب بھی مرکزی وزراء راہول گاندھی کے خلاف بیان بازیوں میں ایسی زبان اور الفاظ استعمال کر رہے ہیں جو انتہائی غیرشائستہ کہی جاسکتی ہے اور پارلیمانی جمہوریت میںاس کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ مرکزی وزیر کرن رجیجو کا ریمارک تھا کہ کسی رکن پارلیمنٹ کو دھکہ مارنا ’ مردانگی ‘ نہیں ہے ۔ اس طرح کے لفظ کا استعمال مناسب نہیںہوسکتا ۔ اور یہی جملہ بی جے پی ارکان پر بھی لاگو ہوتا ہے کیونکہ در اصل انہوں نے ہی راہول گاندھی کو پارلیمنٹ کے اندر جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی ۔ حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش میں اس حد تک چلے جانا کسی بھی حال میں درست نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی ہمارے ملک میں اس کی کوئی گنجائش ہونی چاہئے ۔
سیاسی جماعتوں کیلئے ایک دوسرے سے اختلاف کرنا بنیادی حق ہوتا ہے ۔ انہیں نظریاتی اور مسائل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے اختلاف کرنا ہی چاہئے ۔ یہی جمہوریت کا طرہ امتیاز اور جمہوریت کی انفرادیت ہے ۔ تاہم ملک کی جو روایات رہی ہیں ان کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ اخلاقیات اور اقدار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جانا چاہئے ۔ سیاسی مخالفین کو نشانہ بناتے ہوئے بھی الفاظ و زبان کا خیال رکھا جانا چاہئے ۔ خاص طور پر ارکان پارلیمنٹ ‘ وز۔راء اور جو لوگ عوامی زندگی میں ہیں انہیں اپنے قول و فعل سے سماج کیلئے مثال قائم کرنی چاہئے ۔ غیرشائستہ لب و لہجہ یا الفاظ کا استعمال کسی بھی حال میں درست نہیں ہوسکتا ۔