ادب ایمان کا حصہ ہے

   

محمد عامر نظامی
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آج تک جس کسی نے جو کچھ پایا وہ ادب ہی کی وجہ سے پایا اور جو کچھ کھویا وہ بے ادبی کی ہی وجہ سے کھویا۔ اس لئے بزرگان دین کا یہ مشہور قول ہے باادب بانصیب …بے ادب بد نصیب ۔ شیطان جو معلم الملکوت اور فرشتوں کا سردار اور اللہ تعالی کا بہت ہی مقرب تھاجب اس نے حضرت آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی تو اُس کی برسوں کی عبادت ختم ہوگئی اور وہ دوزخی ہوگیا ۔ اس کے برخلاف جادوگروں نے جب حضرت موسی علیہ السلام کا ادب کیا تو اُن کو ایمان جیسی دولت نصیب ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادب کس کا کیا جائے؟حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بڑوں کا ادب کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو تم جنت میں میری رفاقت پالوگے‘‘(شعب الایمان) یعنی بڑوں کا ادب کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اب دیکھنا ہوگا بڑا کون ہے،سب سے بڑی ذات خدائے وحدہ لا شریک کی ذات ہے جس کا ادب ایمان کی بنیاد ہے ۔ ایک روز حضرت سری سقطی ؒدیر تک تہجد میںکھڑے رہنے کے سبب بہت تھک گئے اور مسجد کے محراب میں پائوں پھیلادیئے، غیب سے آواز آئی اُو سری!کیا بادشاہوں کے دربار میں اسی طرح بیٹھتے ہیں؟ حضرت سری سقطی ؒنے عرض کیا الہی تیرے عزت و جلال کی قسم اب ایسی غلطی نہ ہوگی۔ دیکھئے کس درجہ کے ادب کی ہدایت ہورہی ہے۔ خدا کے بعد کوئی سب سے بڑی ذات ہے تو وہ محمد مصطفی ﷺ کی ذات ہے (بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر) جنکے ادب کی متعدد مقامات پر تاکید کی گئی ہے، ذرہ سی بھی بے ادبی پراعمال کو حبط کرنے کی وارننگ دی گئی ہے۔ خدا اور رسول کے ادب کے بعد پھر ہر اس کا ادب جس کا تعلق حضور ﷺ سے ہویعنی ازواج مطہرات اور آپ ﷺ کی اولاد اور آپ کے تمام صحابہ رضی اللہ عنھم کا ادب پھر اسکے بعد ماں باپ ، اور دیگر رشتہ دار،اساتذہ،پیر و مرشد، علماء و مشائخ اور تمام ذی مرتبہ لوگ ہیں جن کے ادب کا حکم دیا گیا ہے۔