آدمی جب خواہشوں کی آرزو کرنے لگا
رفتہ رفتہ عظمت انساں بھی کم ہوتی گئی
ویسے تو ہندوستان میںعلاقائی عدم توازن کا مسئلہ ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے ۔ یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ مرکز میں برسر اقتدار جماعتیں اپنے اقتدار والی ریاستوں پر نوازشات کی بارش کرتی ہیں اورا پوزیشن جماعتوںکے اقتدار والی ریاستوںکے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ مرکزی اسکیمات میںحصہ داری ہو یا پھر فنڈز کی اجرائی کا معاملہ ہو ہمیشہ سے ریاستوں کے مابین امتیاز کی شکایات عام ہوتی رہی ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ریاستوںکے ساتھ مرکزی حکومتوں کا رویہ جانبدارانہ ہی رہا ہے ۔ اب ملک میں پارلیمانی حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کا مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے اور خاص طور پر ٹاملناڈو کی جانب سے اس مسئلہ پر شدید اعتراضات کرتے ہوئے مرکز کے خلاف سخت گیر رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ مرکزی حکومت ملک میں پارلیمانی حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ اس کیلئے کچھ تیاریوں کا بھی آغاز کردیا گیا ہے ۔مرکز کے ارادوں کے ساتھ ہی یہ اندیشے جنوبی ریاستوں کی جانب سے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ جنوبی ہند کی ریاستوں کے ساتھ اس مسئلہ پر ناانصافی کی جائے گی اور حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کے نتیجہ میں پارلیمنٹ میںجنوبی ریاستوں کی نمائندگی گھٹ جائے گی ۔ پہلے ہی سے یہ شکایت ہے کہ شمالی ہند کی نمائندگی پارلیمنٹ میں بہت زیادہ ہے اور اس کے مقابلہ میںجنوب کی نمائندگی کم ہے ۔ اگر از سر نو حد بندی ہوتی ہے تو یہ اندیشے لاحق ہوگئے ہیں کہ یہ نمائندگی شمالی ہند کے مقابلہ میں مزید کم ہوجائے گی ۔ حالانکہ نئی حد بندیوں کے بعد جنوبی ریاستوں کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد میںاضافہ ہوگا لیکن یہ اضافہ اتنا نہیں ہوگا جتنا شمالی اور وسطی ہندوستان کی ریاستوں میں ہوگا ۔ اس طرح پارلیمنٹ میںشمالی اور وسطی ریاستوں کا غلبہ مزید بڑھ جائے گا اورجنوبی ریاستوں کی نمائندگی میں تناسب کے اعتبار سے کمی آجائے گی ۔ ٹاملناڈو حکومت کی جانب سے اس مسئلہ پر شدید اعتراض کرتے ہوئے مرکزی منصوبوںکی مخالفت کی جا رہی ہے اور تمام جنوبی ریاستوں کے چیف منسٹروں کا ایک اجلاس بھی چینائی میںطلب کیا گیا ہے ۔
جنوبی ہند کی ریاستوں کے چیف منسٹرس کے علاوہ اس اجلاس میںاوڈیشہ کے سابق چیف منسٹر و بیجو جنتادل کے سربراہ نوین پٹنائک بھی شرکت کرنے والے ہیں۔ جنوبی ریاستیں اس مسئلہ پر ایک متحدہ موقف اختیار کرتے ہوئے مرکزی حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کا جہاں تک سوال ہے تو اسے وفاقی طرز حکمرانی کی روایات کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اس حساس اور اہمیت کے حامل مسئلہ پر جنوبی ریاستوں کی تشویش کا سنجیدگی سے اور ہمدردانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ جنوبی ریاستوں کی تشویش کو یکسر بے بنیاد یا غلط قرار دے کر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کی پریشانیوں کی سماعت کی جانی چاہئے ۔ سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے ان کواعتماد میںلینے مرکزی حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ ملک میں تمام علاقوں اور تمام ریاستوں کی اپنی اہمیت مسلمہ ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ہمارے دستور اور قانون میں کسی علاقہ یا کسی ریاست یا کسی فرد سے جانبداری یا امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیںہے اور نہ ایسا کیا جانا چاہئے ۔ پارلیمنٹ سارے ہندوستان کیلئے ایک معتبر اور مقدس ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس کو برقرار رکھنے کیلئے تمام جماعتوں کی نمائندگی کا خیال رکھا جانا چاہئے ۔ پارلیمنٹ یا علاقائی نمائندگی جیسے مسائل کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔سیاسی مفادات کو اس طرح کے امور میںترجیح یا فوقیت دینے سے گریز کرتے ہوئے سبھی کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔
ہندوستان ایک وفاقی طرز حکمرانی والا ملک ہے اور یہاں ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ جنوب اور شمال کے درمیان جو فرق ہے اس کو دور کرنا مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ایسا کوئی کام نہیںکیا جانا چاہئے جس کے نتیجہ میں یہ فرق مزید گہرا ہو جائے یا اس میں مزید اضافہ ہوجائے ۔ جنوبی ریاستوں کو بھی اس معاملہ میں سنجیدگی سے کام کرنے اور پورے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرکز سے موثر نمائندگی کرتے ہوئے اپنے او ر عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ مرکز کو اس معاملے میں لچکدار موقف اختیار کرتے ہوئے علاقائی امتیاز سے بالاتر ہو کر کام کرنا چاہئے ۔