ازدواجی رشتوں میں قتل و غارت گری

   

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
ہندوستان ہمیشہ سے روایتوں اور اقتدار والا ملک رہا ہے ۔یہاںسماجی تانے بانے ہمیشہ سے مستحکم رہے ہیں اور ان کو کافی اہمیت بھی دی جاتی رہی ہے ۔ خاندانی رشتوں اور خاص طور پر ازدواجی رشتوںکی اہمیت کو ہمارے سماج مے ہمیشہ سے قبول کیا ہے۔ سماجی رشتوں کوہمیشہ ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تار ہا ہے اور ساری دنیا میں ہمارے ملک کی یہ انفرادیت بھی رہی تھی کہ ہم اپنے رشتوں کے تعلق سے بہت حساس ہوتے ہیں۔ رشتوں کا احترام کیا جاتاہے اور خاص طور پر خواتین کے معاملے میں تو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے ۔ ہر رشتہ میں خواتین کا احترام کیا جاتا رہا ہے اور یہاں خواتین کو دیوی کا روپ بھی سمجھا گیا ہے ۔ اسی طرح ہمارے ملک کی خواتین نے بھی اپنے رکھ رکھاؤ اور اپنے کردار سے ہمیشہ اس سلوک کو واجبی قرا ردیاہے ۔ ازدواجی رشتوں کی سماج میں سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور ان میں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا جاتا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھا جا رہا ہے کہ ہمارے سماج میں رشتوں سے کھلواڑ ہونے لگا ہے ۔ خاص طور پر میاں بیوی کے رشتوں میں قتل و غارت گری کے واقعات عام ہونے لگے ہیں۔ کہیں خواتین ناجائز تعلقات کے چکر میں اپنے شوہروں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں تو کہیں شوہر اپنی بیویوں کو بہیمانہ طور پرقتل کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ان کی نعشوں کو ٹھکانے لگانے میں غیر انسانی طریقے اختیار کرلئے گئے ہیں۔ کہیں سمنٹ کے ساتھ ڈرم میں چھپایا جا رہا ہے تو کہیں نعش کے ٹکڑے کرکے انہیں ندیوں میں بہایا جا رہا ہے یا فرج میں چھپایا جا رہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں اس طرح کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے اور آئے دن اس طرح کے انسانیت سوز اور رشتوں کو شرمندہ کرنے والے واقعات پیش آ رہے ہیں اور اس سے ہمارا سماج کھوکھلا ہوتا نظر آر ہا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سماج کچھ حد تک کھوکھلا ہوچکا ہے اور اسی کے نتیجہ میں اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں ۔ ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے رشتے ایک دوسرے کی جان لینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں اور انہیں نتائج کی کوئی پرواہ نہیں رہ گئی ہے۔
جس طرح سے دنیا ترقی کر رہی ہے اسی طرح سے ہندوستان بھی ترقی کر رہا ہے تاہم ترقی کا یہ انتہائی منفی پہلو ہے کہ نوجوانوں کی سوچ محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ وہ صرف مادہ پرستی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں ۔ انہیں رشتوں کی اہمیت کا کوئی خیال نہیں رکھ گیا ہے وہ صرف اپنی لذتوں کی خاطر کچھ بھی کر گذرنے کو تیار ہوگئے ہیں۔ جس طرح ملک ترقی کر رہا ہے اسی طرح ہمارے معاشرہ میں مغربی تہذیب کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے ۔ لوگ سماجی اخلاقیات اور اقدار کی پرواہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ نوجوانوں کیلئے صرف اپنی مرضی اہمیت کی حامل رہ گئی ہے ۔ ترقی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اخلاقیات کوفراموش کردیا جائے اور مادہ پرستی کی دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے ۔ جس طرح سے ناجائز تعلقات کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے وہ سماج کے کھوکھلے پن کا ثبوت ہے ۔ رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے میں کسی کو شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی ہے اور وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر کسی بھی حد کو پھلانگنے کیلئے تیار ہو جا رہے ہیں۔ اس صورتحال نے ہمیں شرمندہ اور شرمسار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ چاہے وہ ہنی مون قتل کا واقعہ ہو یا پھر دہلی میں پیش آیا واقعہ ہو ۔ چاہے وہ حیدرآباد میں حاملہ بیوی کا قتل ہو یا پھر نوئیڈا میں جہیز کیلئے شریک حیات کو زندہ جلادینے کا واقعہ ہو ۔ یہ واقعات ہندوستانی روایات اور کلچر سے دوری کا نتیجہ ہیں اور مغربی سوچ کو اور وہاں کے کلچر کو خود پر حاوی کرلینے کی وجہ سے اس طرح کی صورتحال ملک میں پیدا ہونے لگی ہے ۔
اقدار ار اخلاقیات سے دوری ہی کا نتیجہ ہے ہ نوجوان نسل آج دماغی تناؤ کا ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہے ۔ ان میں نفسیاتی بیماریاں پیدا ہونے لگی ہے اور ہم بتدریج مغربی دنیا کی صورتحال کا شکار ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورتحال کا سدباب کیا جائے اور نوجوانوں کی کونسلنگ کی جائے ۔ پہلے ہی یہ برائیاں بہت زیادہ حد تک سرائیت کر گئی ہیں اور اگر اب بھی ان کی روک تھام کی بیڑہ نہیں اٹھایا گیا تو پھر آئندہ وقتوں میں صورتحال قابو سے باہر ہوجائے گی اور ہاتھ ملنے کے سوا ہم کچھ نہیںکر پائیں گے ۔ سماج کے ذمہ داروں کو اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کرنے اور آگے آنے کی ضرورت ہے ۔