ازدواجی زندگی اختلافات کے اسباب و وجوہات

   

نکاح انسانی زندگی کا جزو لاینفک اور لازمی حصہ ہے، جس سے مقصود باہمی انسیت کے علاوہ افزائش نسل بھی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے نکاح فرمایا اور اپنی امت کو بھی نکاح کی تلقین کی اور سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی نکاح کا اہتمام فرمایا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’تحقیق کہ ہم نے آپ سے پیشتر رسولوں کو مبعوث کیا اور ان کے لئے بیویوں اور اولاد کو بنایا‘‘ (سورۃ الرعد۔۸۳) قرآن مجید نے صالحین اور نیکوکاروں کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ دعاء کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے پروردگار! ہمارے لئے ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا‘‘ (سورۃ الفرقان۔۴۷) اللہ تعالی نے میاں بیوی کے باہمی پیار و محبت اور جذبہ ہمدردی و غمخواری کو اپنی آیات قدرت سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد فرمایا ’’اور اسی کی آیتوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جانوں سے بیویوں کو بنایا، تاکہ تم سکون پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کو بنایا، یقیناً اس میں غور و فکر کرنے والی قوم کے لئے نشانیاں ہیں۔ (سورۃ الروم۔۱۲)
میاں بیوی کا رشتہ درحقیقت دو تن ایک روح، دو قالب اور ایک دل کی مانند ہے۔ یہ رشتہ دو اجنبی اور پرائے افراد میں ایسی انسیت، اُلفت اور محبت پیدا کردیتا ہے، جس کی وجہ سے دونوں کی منفعت اور نقصان ایک ہو جاتے ہیں۔ دونوں کے مقاصد مشترک ہو جاتے ہیں، دونوں ایک ہی منشاء کے مطابق جستجو کرتے ہیں اور دونوں کی منزل ایک ہی ہوجاتی ہے۔ اس پاکیزہ رشتہ کی بنیاد مخصوص قاعدوں پر منحصر نہیں ہے اور نہ ہی اس کے مقررہ حدود و قیود ہیں، بلکہ اس مستحکم رشتہ کا دار و مدار پیار و محبت، ایثار و قربانی، احساس ذمہ داری، صبر و تحمل، وارفتگی و جاں نثاری اور ایک دوسرے کے احترام پر ہے۔ جب میاں بیوی میں باہمی اُلفت اور ایثار و قربانی کے جذبات بالخصوص ضبط نفس کا جوہر نہ ہو تو یہ رشتہ پایہ استحکام کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس رشتہ کی بقاء اور استحکام، ذہنی یکسانیت اور باہمی موافقت و رضامندی پر ہے اور جب دونوں میں سے ہر ایک اپنی خوشی، رضا اور خواہش پر دوسرے کی خوشی و خواہش کو ترجیح دیتا ہے تو یہ کاروان حیات پرسکون و پرمسرت ماحول میں منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے اور اگر دونوں کی خوشی ایک نہ ہو، ہر ایک دوسرے کے ماں باپ، بھائی بہن اور عزیز و اقارب کو اپنے ماں باپ، بھائی بہن اور عزیز و اقارب تصور نہ کرے اور دونوں کے پیش نظر اجتماعی مفاد ملحوظ نہ ہو تو سفر حیات نہایت تلخ اور تکلیف دہ ہو جاتا ہے اور بسا اوقات دونوں اپنی منزل سے پہلے ہی راستے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام نے ازدواجی و عائلی نظام کو نہایت قوت اور استحکام عطا کیا ہے۔ چوں کہ اسلامی تعلیمات میں مرد و زن کے فطری تقاضوں اور ضروریات کے ساتھ توازن کو ملحوظ رکھا گیا ہے، جس کے بغیر کامیاب ازدواجی زندگی کا تصور ممکن نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں میں سے ایک کو یکساں حقوق اور مساوی درجہ دیا جاتا تو اس رشتہ کی پائیداری و استحکام مفقود و معدوم ہوجاتی ہے۔ اس لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مرد کو عورتوں پر ’’قوام‘‘ و نگران بنایا، عورتوں کو کسب معاش سے مستغنی کردیا اور ان کو خود ان کے نفقہ سے بے نیاز کردیا اور ان کی تمام تر ذمہ داری شوہروں پر عائد کردی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’البتہ مردوں کو ان (عورتوں) پر فضیلت ہے‘‘ (سورۃ البقرہ ۸۲۲) مرد، عورتوں پر نگران ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالی نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ مرد ان پر اپنے مال خرچ کرتے ہیں (سورۃ النساء۔۴۳) لیکن جہاں تک حقوق کا تعلق ہے، اس میں شوہر و بیوی دونوں مساوی ہیں۔ جس طرح بیوی کے فرائض و ذمہ داریاں ہیں، اسی طرح بیوی سے متعلق شوہر پر فرائض و ذمہ داریاں ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’(دستور کے مطابق) عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں، جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں‘‘ (سورۃ البقرہ۔۸۲۲) شوہر کو نگران، محافظ اور منتظم بناکر بیوی پر اس کی اطاعت و فرماں برداری کو لازم گردانا گیا، وہیں شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اور بہترین سلوک کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے ’’اور تم ان عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو اور اگر تم انھیں پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے‘‘۔ (سورۃ النساء۔۹۱)
حضور نبی اکرم ﷺ نے بیویوں کو اپنے شوہروں کو خوش رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ’’شوہر غصہ میں رات گزارے تو صبح ہونے تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے ہیں‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ ’’جب تک شوہر راضی نہ ہو جائے آسمان والا ناراض رہتا ہے‘‘ (بخاری شریف) نیز حضور نبی اکرم ﷺ نے شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ’’تم میں بہترین شخص وہ ہے، جو اپنے اہل و عیال (بیوی بچوں) کے ساتھ بہتر ہو‘‘۔خوشحال ازدواجی زندگی کے گزارنے کے لئے مذکورہ آیات قرآنی اور احادیث نبوی ﷺ کے سنہرے اصول و قوانین کی تعمیل ناگزیر ہے، جن کو روبہ عمل لانے سے ازدواجی زندگی خوشیوں کے منازل طے کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچتی ہے۔ لیکن شومی قسمت کہ عائلی زندگی سے متعلق ایک مہتم بالشان نظام قانون اور حضور نبی اکرم ﷺ کے عملی نمونہ کو محفوظ رکھنے کے باوجود مسلم گھرانے بالخصوص میاں بیوی اطمینان قلب جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ ادنی سی بات پر اختلاف کی وجہ سے زندگی اجیرن ہو رہی ہے اور کثرت سے طلاق و خلع اور علحدگی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
متعدد اچھے رشتے صرف اور صرف نادانی، غلط فہمی، انانیت، جلد بازی اور غیر معقول وجوہات کی بناء اختلافات کا شکار ہوئے اور نوبت طلاق و خلع تک پہنچ گئی، بالخصوص میاں بیوی اور ان کے سرپرست اس رشتہ نکاح کو اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے طے شدہ سمجھ کر قلبی طورپر ہر طرح سے کامیاب بنانے کی فکر کریں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ضرور دونوں میں موافقت پیدا کردے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اور اگر تمھیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم مرد کے خاندان میں سے ایک منصف (انصاف سے فیصلہ کرنے والے) کو اور عورت کے خاندان سے ایک منصف کو مقرر کرلو اور وہ دونوں صلح کا ارادہ رکھیں تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا باخبر ہے‘‘۔ (سورۃ النساء۔۵۳)
آج کل لڑکیوں میں صبر و تحمل کا مادہ نہیں رہا اور کوئی ناگوار صورت پیش آئے تو صبر و تحمل اور خوش اسلوبی سے حل کرنے کی بجائے بداخلاقی اور بدزبانی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور بدزبانی اور بداخلاقی سے کبھی کوئی رشتہ پائیدار اور مستحکم نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں کٹھن حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور آخرت میں بھی نقصان ہوگا۔ علاوہ ازیں سسرال والوں کی زیادتیاں اور میاں بیوی کے امور میں بیجا مداخلت بھی کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے۔ دوسری طرف لڑکی کی غلطیوں پر اس کے ماں باپ کی پشت پناہی مزید انتشار پیدا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ لڑکے کی بیروزگاری یا کم تنخواہ، پیسوں کی حرص یا پھر جھوٹی شان و شوکت کا اظہار، نیز لڑکی کا اپنی تعلیم پر گھمنڈ اور اس جیسے اسباب و وجوہات مسلمانوں کے عائلی نظام کو درہم برہم کر رہے ہیں۔ اگر فریقین سنجیدہ ہوں، رشتہ کی برقراری کے حق میں ہوں اور صبر و تحمل، ضبط نفس، ایثار و قربانی، چشم پوشی اور عفو و درگزر کا معاملہ کریں تو اختلافات خواہ کتنے ہی کشیدہ کیوں نہ ہوں، ان پر قابو پایا جاسکتا ہے اور حالات استوار ہوسکتے ہیں۔