زندگی منزلِ آخر میں تھی خاموش مگر
آپ آتے تو ہم افسانہ سنا بھی دیتے
وحشی اسرائیل کی جانب سے درندہ صفت کارروائیاں سارے غزہ میں جاری ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کے صفائے کے منصوبہ پر عمل آوری شروع کردی گئی ہے اور وہ اپنے منصوبوں کے مطابق سارے غزہ پر قبضہ کرلینے اور غزہ میں اپنی نئی آبادی بسانے کے عزائم کی تکمیل کرنے میں جٹ گیا ہے ۔ گذشتہ دنوں ایک یوروپی میڈیا ادارہ کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے ڈسمبر 2023 سے ہی یہ منصوبہ تیار کرلیاتھا کہ غزہ کو فلسطینی آبادی سے خالی کردیا جانا چاہئے جس کے بعد وہ اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔ اسی منصوبے کے تحت غزہ پر جس طرح سے وحشیانہ بمباری کی گئی اور ہزاروں کی تعداد میںفلسطینیوں کو شہید کردیا گیا وہ ساری دنیا کیلئے ایک کلنک اور سیاہ دھبے سے کم نہیں ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل اپنی وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے اس کے باوجود اقوام عالم کی جانب سے اس کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی بیان بازی کی جا رہی ہے ۔ اسرائیل لگاتار غزہ میں نسلی صفائے کے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے ۔ جنگ بندی کے معاہدہ کے باوجود غزہ میں درندگی والی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ غزہ میں پھنسے ہوئے فلسطینیوں کیلئے امداد رسانی کا سلسلہ تک بند کردیا گیا ہے ۔ انسانی بنیادوں پرا مداد پہونچانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے ۔ غذائی اجناس فراہم کرنے کا سلسلہ روک دیا گیا ہے ۔ ادویات تک نہیں پہونچائی جا رہی ہیں۔ بچوں کو دودھ کی سپلائی تک روک دی گئی ہے ۔ اس کے باوجود ساری دنیا اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ اسرائیل کے ظالمانہ وجود کو تسلیم کرلیا جائے ۔ اس کی بہیمانہ کارروائیوں کا جواز پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ فلسطینیوں کے نسلی صفائے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہوئے ظالم اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ امریکہ اور دوسری عالمی طاقتیں بھی اسرائیل کے مظالم اور گناہوں میں برابر کی شریک ہیں اور انہیںاسرائیل کے وجود کو منوانے کی فکر کھائے جا رہی ہے ۔
آج اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے والے ادارہ کی جانب سے بھی بارہا یہ دہائی دی جا رہی ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کیلئے امداد فراہم کرنے کی اجازت دی جائے ۔ فلسطینیوں کو اپنی موت آپ مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ فلسطینی عوام ایک وقت کی روٹی کیلئے ترس رہے ہیں۔ بچے دودھ کیلئے بلک رہے ہیں۔ زخمی اور مریض فلسطینی ادویات کے انتظار میں بیٹھے ہیں لیکن انہیں کسی طرح کی سہولت نہیں مل پا رہی ہے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ ان کی زندگیوںکو موت سے بدتر کردیا گیا ہے ۔ ساری صورتحال دنیا کے سامنے ہے اور حد درجہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کی بے بسی پر بے حسی کا مظاہرہ کرنے میں لگی ہوئی ہے اور ظالم اسرائیل کی حمایت میں آواز بلند کی جا رہی ہے ۔ امریکہ دنیا کے مختلف ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو استوار کرلے ۔ لیکن یہی امریکہ نہتے فلسطینیوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کیلئے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے اور نہ ہی اس کیلئے آواز اٹھائی جا رہی ہے ۔ امریکہ ہو یا دوسرے ممالک ہوں سبھی اس معاملے میں خاموش ہیں اور وہ اسرائیلی مظالم اور جرائم میں حصہ دار بن رہے ہیں۔ آج دنیا فلسطینیوں کی بے بسی کا نظارہ کرنے کے باوجود لب کشائی اور کسی طرح کی امداد فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے جس سے دنیا کی بے حسی اور ڈوغلے پن کا واضح ثبوت مل رہا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ کم از کم علاقہ کے مسلم اور عرب ممالک حرکت میں آئیں ۔ ساری دنیا پر دباو ڈالا جائے کہ فلسطینیوں کا مقاطعہ بند کیا جائے ۔ ان کا عرصہ حیات بحال کیا جائے ۔ انہیں انسانی بنیادوں پر ضروری امداد فراہم کی جائے ۔ ان کے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے ۔ فلسطینیوں کو دو وقت کی غذا فراہم کی جائے ۔ مریضوں اور زخمیوں کو ادویات دستیاب کروائی جائیں ۔ بچوں کو دودھ فراہم کیا جائے ۔ خواتین اور مردوں میں جینے کا حوصلہ پیدا کیا جائے ۔ اگر دنیا اس معاملے میں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے تو یہ انتہائی افسوس کی بات ہے ۔ انسانیت کو سسک سسک کر دم توڑنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔