اسرائیل کو بہرصورت روکا جائے

   

سکون نہیں ہے زمانہ میں انتشار تو ہے
ہمارے قبضہ میں کچھ بھی ہو اقتدار تو ہے
دنیا بھر میںاسرائیل سفاکیت کی علامت بنتا چلا جا رہا ہے اور ساری دنیا اس کی سفاکیت اور غیر انسانی فوجی کارروائیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جس کے نتیجہ میںاسرائیل کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور وہ نہتے ‘ معصوم اور بے گناہ انسانوںکا قتل عام کرتے ہوئے ساری انسانیت کو رسواء کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔ اسرائیل اپنے آس پاس کسی کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ خود اسرائیل کا وجود ظالمانہ ‘ غاصبانہ اور ناجائز ہے ۔ یہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کس طرح سے فلسطینیوںاور فلسطینیوں کیلئے آواز اٹھانے والوں کو یکے بعد دیگرے ختم کرنے کے اپنے منصوبوںکو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے ۔ وہ کسی طرح سے انسانیت کو رسواء کرنے والے جرائم کا ارتکاب کرتا چلا جا رہا ہے ۔ سینکڑوں ہیں بلکہ ہزاروں سے زیادہ انسانوں کا قتل عام کرنے کے باوجود دنیا میں کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں رہ گیا ہے جو اس کی سفاکیت کے خلاف آواز اٹھا سکے یا اسے اپنے جرائم اور مظالم سے روک سکے ۔ امریکہ اور اس کے حواری ممالک ایسا لگتا ہے کہ خود اسرائیل کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن گئے ہیں۔ وہ اسرائیل پر لگام کسنے کی بجائے اس کے مظالم اور جرائم کا جواز پیش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ انہیں نہتے فلسطینیوں کی اموات پر کوئی تکلیف نہیں ہوتی اگر یوروپ میں ایک کتا بھی مر جائے تو شور شرابہ کیا جاتا ہے ۔ یہ اپنے آپ کو مہذب اور تہذیب یافتہ قوم کہلانے والوں کا ڈوغلا پن ہے ۔ انہیں کسی چوپائے کی موت پر تو افسوس ہوتا ہے لیکن انسانوں کے بے دریغ قتل عام پر وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ یہ حد درجہ کا ڈوغلا پن ہے ۔ اسرائیل کے جرائم میں ان کی حصہ داری ہے ۔ ان کی خاموشی محض خاموشی نہیں ہے بلکہ انسانیت کو رسواء کرنے والے جرائم کا حصہ ہے ۔ فلسطین میں کئی مہینوں تک قتل عام کا سلسلہ دراز کرنے والا اسرائیل اب لبنان کو نشانہ بنانے میں لگا ہوا ہے اور سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ پہلے پیجر دھماکے کئے گئے اور اب راست لبنان میں حملے کرتے ہوئے اپنے ظالمانہ منصوبوںکو پایہ تکمیل کو پہونچا رہا ہے ۔
امریکہ ہو یا برطانیہ ہو یا دوسرے مغربی ممالک ہوں اس معاملے میں انتہائی ڈوغلے پن اور دوہرے معیارات کا اظہار کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی دہائی دینے کا ناٹک کرنے والوں کو فلسطینیوں کے حقوق یاد نہیںآ رہے ہیں۔ انہیں لبنان میں جاری قتل عام پر کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔ انہیں مشرق وسطی کے کسی ملک میں انسانیت سوز جرائم کرنے والے اسرائیل پر لگام کسنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ ساری دنیا ایک طرح سے اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کرتی چلی جا رہی ہے ۔ اسے روکنے کی یا اس پر دباؤ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے ۔ اسرائیل اپنے منصوبوں پر لگاتار عمل کرتا چلا جا رہا ہے ۔ وقفہ وقفہ سے اس کی کارروائیوں کا سلسلہ بڑھ رہا ہے ۔ انسانی جانوں کا اتلاف بھی بے تحاشہ ہو رہا ہے ۔ جائیداد و املاک کے نقصان کا تو کوئی تخمینہ ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ بسے بسائے شہر کھنڈر میں تبدیل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دواخانوں اور اسکولس و کالجس کی عمارتوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے ۔ زخمیوں کیلئے علاج و معالجہ کی سہولیات کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ ادویات کی منتقلی کی اجازت تک نہیں دی جا رہی ہے اور ساری دنیا اس جرم میں برابر کی شریک کہی جاسکتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اب اپنے ظالمانہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کی حکمت عملی کو آگے بڑھا رہا ہے اور اگر اس کو فوری طور پر روکا نہیں گیا تو یہ تنازعہ مزید وسعت اور شدت اختیار کریگا اور انسانی تباہی کے اندیشوںاور خدشات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔
امریکہ ‘ برطانیہ ‘ اقوام متحدہ یا دوسرے مغڑبی ممالک یا عالمی اداروں میں اگر ذرہ برابر بھی انسانیت ہے تو انہیں اسرائیل کو اس کی ظالمانہ اور جابرانہ کارروائیوں سے روکنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ اس کے جرائم کا سلسلہ روکا جانا چاہئے ۔ اس پر دباؤ ڈالا جانا چاہئے کہ وہ اپنے غاصبانہ منصوبوں کو ترک کرے ۔ انسانیت کے خلاف جرائم کو روکا جائے ۔ انسانیت کے قتل عام کا سلسلہ بند کیا جائے ۔ اگر یہ تنازعہ مزید وسعت اختیار کرگیا اور صورتحال قابو سے باہر ہوجائے تو ناقابل بیان نقصانات ہوسکتے ہیں اور اس تباہی اور بربادی کی ذمہ داری سے اقوام متحدہ ‘ امریکہ اور دوسرے ممالک و عالمی ادارے بری نہیںہوسکتے ۔