یروشلم۔ ۔ 4 مارچ ۔(سیاست ڈاٹ کام) اسرائیل میں دوشنبہ کے روز منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں ڈالے گئے نوّے فیصد سے زیادہ ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے۔گزشتہ ایک سال میں منعقدہ ان تیسرے انتخابات میں بھی کوئی اسرائیلی جماعت 120 ارکان پر مشتمل الکنیست میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی ہے۔ البتہ اسرائیلی عرب جماعتوں کی نشستوں کی تعداد میں ضرور اضافہ ہوگیا ہے۔ عرب جماعتوں کی مشترکہ فہرست میں سے پندرہ امیداوار الکنیست کا رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اسرائیل میں آباد عرب ملک کی کل آبادی کا 21 فیصد ہیں۔اسرائیل ڈیمو کریسی (آئی ڈی آئی) سے وابستہ محقق ایرک رودنزکی کا کہنا ہے کہ عرب ووٹروں کا ٹرن آؤٹ 64.7 فیصد رہا ہے اور یہ عربوں کی گزشتہ 20 سال کے دوران میں ووٹ ڈالنے کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولنگ کے روز عرب ووٹروں کے جوش وخروش اور حق رائے دہی کیلئے گھروں سے نکلنے سے انتہا پسند اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی امیدیں خاک میں مل کر رہ گئی ہیں اور وہ حکومت بنانے کیلئے درکار سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ایک مرتبہ پھر ناکام رہے ہیں۔ عرب اتحاد کے لیڈر ایمن عودہ نے عرب شہر شفارام میں اپنے حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو صرف ایک وجہ سے 61 نشستیں حاصل نہیں کرسکے ہیں اور وہ مشترکہ لسٹ کا عروج ہے۔نیتن یاہو نے پیر کو پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد رائے عامہ کے جائزوں کی بنیاد پر اپنی جماعت لیکوڈ کی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا لیکن اب انتخابی نتائج قریب قریب مکمل ہوچکے ہیں۔ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکومت بنانے کیلئے درکار سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے مد مقابل مسلح افواج کے سابق سربراہ بینی گانتز کی نیلی اور سفید پارٹی بھی حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔