اسلام میں معیشت کے منفی اقدار

   

اسلام میں معیشت کو صرف دنیوی زندگی کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس میں مرکزی مقام اخروی کامیابی کو حاصل ہے ۔ اس لئے یہاں پر شریعت کی اتباع ایک عظیم مقصد ہے اور باقی تمام افعال کو شریعت کے تابع رکھنا ضروری ہے ۔ اسلامی معاشیات انسان کے افعال کا مطالعہ شریعت کی روشنی میں کرتی ہے اور جہاں شریعت سے انحراف دیکھتی ہے وہاں اس کے اتباع کے لئے راستہ متعین کرتی ہے کیونکہ اخروی زندگی دراصل دنیوی زندگی کا نتیجہ ہے ۔ آخرت میں جزا و سزا کا مدار اگر ان اعمال پر ہے جو دنیوی زندگی میں کئے جاتے ہیں تو اس زندگی کے اعمال صالحہ کو اولین اہمیت حاصل ہے اور ان میں حسن معاشرت اور صالح اعمال معاش بھی شامل ہیں ۔
اسلام میں جملہ معاشرتی اور معاشی اعمال کو نیکی اور اعمال صالحہ کی اصطلاحوں میں بیان کیا گیا ہے لہذا معاشی عمل نہ مجبوری ہے نہ نفس کی رغبتِ زراندوزی ، بلکہ کامل نیکی ہے ۔ اسی لئے اسلامی تصور کے مطابق معاشی عمل میں رقابت ، حسد اور طبقاتی دشمنی پیدا نہیں ہوتی ۔ بخلاف مغربی معاشی عمل کے کہ اس کی بنیاد استحصال اور حب مال و جاہ پر ہے جس کے نتیجے میں حسد اور انتقام نمایاں نظر آتا ہے۔
اسلامی معاشیات اپنی ماہیت میں ایک اخلاقی و روحانی حقیقت کانام ہے اور شریعت اس کا دستور العمل ہے ۔ جس طرح اسلام میں مثبت اقدار کے ذریعے ایک خاص طرح کا کردار تعمیر کیاجاتا ہے اسی طرح منفی اقدار کے ذریعہ ایک دوسری قسم کے طرز عمل سے کراہیت سکھائی جاتی ہے ۔

۱۔ ظلم : جس طرح عدل کا قیام شریعت کے اہم مقصد میں سے ہے اسی طرح ظلم کا قلع قمع بھی شریعت کی نگاہ میں بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے : اَلَا لَعْنَةُ اللّـٰهِ عَلَى الظَّالِمِيْنَ
آگاہ ہوجاؤ ! اﷲ تعالیٰ کی لعنت ظالمین پر ہے ۔(سورۃ ھود ؍۱۸)
انفرادی عمل سے لیکر ریاست کے اہم اُمور تک جہاں جہاں بھی ظلم اور ناانصافی پیدا ہوسکتی ہے شریعت نے روک لگائی ہے اور ہدایت دی ہے کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے ۔ اسلای معیشت کا قاعدہ کلیہ ہے ۔ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ’’نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے ۔ (سورۃ البقرۃ ۲؍۲۷۹)
اور اگر کبھی معاشرہ میں ظلم نظر آجائے تو معاشرہ کا ضمیر اتنا حساس ہونا چاہئے کہ اس پر سب سراپا احتجاج بن جائیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ظلم کی تنکیر کی گئی ہے ۔ حضور پاک ﷺ کی تعلیمات میں بھی ظلم اور غصب کی مذمت بکثرت پائی جاتی ہے ۔ مثال کے طورپر کسی کے لئے جائز نہیں کہ کسی دوسرے کی ایک بالشت زمین بھی بغیر حق کے غضب کرے ۔ ( بخاری باب بدء الخلق )
کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ دوسرے کی زمین میں بلا اجازت کاشت کرے ۔(ابوداؤد ، کتاب البیوع باب ۳۲)
اگر کوئی شخص کسی ملازم یا مزدور سے کام لے اور اس کی اجرت اور مزدوری نہ دے تو حضور پاک ﷺ نے آخرت میں خود استغاثہ دائر کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔
(البخاری ، باب البیوع : ۱۰۶)
اسی طرح کسی زمیندار کے لئے جائز نہیں کہ اگر فصل کسی آسمانی آفت سے تباہ ہوگئی ہو تو پھر بھی کسان سے اپنا حصہ طلب کرے ۔ ( مسلم مساقاۃ و المزارعۃ )
غرض کہ معاشی عوامل کے جملہ تعلقات میں جہاں عدل کے قیام کا اہتمام ہے وہاں اس کا بھی بندوبست کیا گیا ہے کہ کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہ کرے۔

۲۔ اسراف و بخل : دولت کے باب میں شریعت نے واضح طورپر اسراف اور بخل کی دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔
(بنی اسرائیل ؍۲۹)
شریعت میں اسراف سے مراد :
الف : شریعت کی طرف سے ممنوعہ اُمور پر خر کرنا خواہ وہ کتنی ہی کم رقم ہو اسراف کہلاتی ہے ۔
ب ۔ حلال مقاصد پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا (ضرورت کا معیار ہر معاملے میں عرف عام پر منحصر ہے ) ۔
ج : اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ریا کی نیت سے خرچ کرنا ۔
بخل سے مراد : الف : اپنے اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنے سے گریز کرنا باوجود یکہ مالی استطاعت موجود ہو ۔
ب : وسعت کے باوجود اﷲ کی راہ میں یا کسی ضرورتمند کی مدد کرنے سے پرہیز کرنا ۔
۳۔ اکتناز : اکتناز سے مراد ہے مال و دولت کو نفس کی تسکین کے لئے جمع کرتے جانا اور گن گن کے رکھنا ، جس سے نہ تو وہ جمع کرنے والے اور نہ معاشرے کے کسی دوسرے فردکے کام آسکے ۔ یہ بخل کی ایک انتہائی شکل ہے ۔ چونکہ اس عمل سے گردش دولت میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور معاشی عمل رُکتا ہے ، لہذا شریعت میں اس کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ (سورۃ الھمزہ ؍ ۲۔۴) قرآن مجید کے مطابق ایسے لوگوں کو اس سیم و زر سے داغا جائیگا ۔(سورۃ التوبۃ ؍۳۴)
حدیث شریف میں ہے کہ یہ سیم وزر ایک کالے گنجے سانپ کی شکل میں آدمی کی گردن میں ڈالدیا جائیگا اور وہ پکار پکار کر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں ( مسلم ، کتاب الزکاۃ ) غرض کہ مختلف تشبیہات سے مال کی اس غیرمتوازن محبت سے روکا گیا ہے۔

۴۔ حرص : یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے ۔ اگرچہ مال و دولت کی محبت انسان کی فطرت میں ہے لیکن شریعت نے اس محبت کو ایک توازن پر رکھنے کی تاکید کی ہے ۔ قرآن مجید میں حرص کی مذمت کی گئی ہے ( سورۃ التغابن : ۱۶) اسی طرح حدیث میں ہے کہ حرص اور ایمان ایک ساتھ نہیں ہوسکتے ۔ ( ترمذی باب البر والصلۃ ) ایک جگہ آدمی کہتا ہے کہ میرا مال ، حالانکہ اس کا مال تو وہ ہے جو اس نے کھا پی لیا ، پہن لیا اور صدقہ کردیا ۔ باقی تو یہیں رہ جانے والا ہے ۔ ( ترمذی ۔ الزھد)
ایک روایت میں ہے کہ آدمی کی حرص کو قبر کی مٹی ہی پورا کریگی ۔ حرص کی اتنی شدید مذمت اس لئے کی گئی ہے کہ حرص کے غلبہ سے حلال و حرام کی تمیز باقی نہیں رہتی ۔
ان منفی اقدار کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت ایک ایسا معاشرہ وجود میں لانا چاہتی ہے جس میں شریعت کے حلال و حرام کے ضابطے کی رضاکارانہ پابندی ہو اور لوگ مجموعی طورپر شریعت کے حدود و قیود کے پابند ہوں ۔
یہ معاشی اقدار اسلامی معاشرے کے خدوخال کا منظر تصویر میںلانے کے لئے بہت مفید ہیں نیز اسلام کے معاشی اصول و قوانین سے بحث یا مطالعہ سے قبل اسلام کے معاشی مثبت اور منفی اقدار کو بنیادی ضوابط کے طورپر ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔