اسلامی تشخص کی حفاظت اورغیرقوم سے مشابہت کی مذمت

   

Ferty9 Clinic

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے توسط سے تاقیامت آنے والے تمام مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے : ’’پھر ہم نے آپ کو شریعت پر مقرر کیاہے پس آپ اسی شریعت کی پیروی کیجئے ، ان لوگوں کے خواہشات کی پیروی نہ کریں جو علم نہیں رکھتے ‘‘۔(سورۃ الجاثیۃ ۴۵؍۱۸)
ارشاد الٰہی ہے : ’’اے ایمان والو ! تم یہو و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ ( تمہارے خلاف ) ایک دوسرے کے دوست ہیں تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائیگا بیشک وہ ان میں سے ہی ہے اور اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا ‘‘( سورۃ المائدہ ۵؍۵۱)
مفسرین کرام نے مذکورہ بالا آیات قرآنیہ کے تحت لکھا کہ غیرمسلمین کو دوست بنانا اور ان سے مشابہت اختیار کرنا ، ان کے ظاہری طور طریقوں اور رسم و رواج کو اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کریگا وہ انہی میں سے ہوگا ‘‘ اور بعض روایات میں ’’حشر معھم ‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے گا اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا ۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تشریح میں طیبی کا قول نقل کیاہے : ’’غیرقوم سے مشابہت اختیار کرنا ، ظاہری ہیئت ، اخلاق و کردار، عادات و اطوار ، رسم و رواج ہر ایک پر شامل ہے ۔
نبی اکرم ﷺ نے اسلامی تشخص کی حفاظت و صیانت پر غیرمعمولی توجہہ فرمائی اور غیرقوم کی تہذیب ، کلچر ، رکھ رکھاؤ ، رہن سہن ، طرز معاشرت ، ظاہری شکل و ہیئت میں ذرا سی بھی مشابہت کو پسند نہیں فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کمر پر ہاتھ رکھنے کوپسند نہیں فرماتے تھے وجہہ یہ تھی کہ یہود اس طرح کیا کرتے تھے ۔ ایک اور روایت میں نماز میں کمرپر ہاتھ رکھنے کو ناپسند کرنے کے الفاظ منقول ہیں۔ حتی کہ ’’سلام ‘‘ کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا : ’’جو ہمارے غیر کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ تم نہ یہودیوں کی مشابہت اختیار کرنا اور نہ ہی نصاری کی ۔ بلاشبہ یہود کا سلام کرنا ، انگلیوں سے اشارہ کرنا ہے اور نصاری کا سلام کرنا ہتھیلیوں کے اشارہ سے ہے ‘‘۔ (الحدیث )
واضح رہے کہ یہود ہفتہ کی تعظیم کرتے اور اس دن کوئی کام و کاج اور کسب معاش نہیں کرتے جب نامور یہودی مثلاً عبداللہ بن سلام ، بن یامین اسد و اسید ، شعبہ بن عمرو اور قیس بن زید مشرف باسلام ہوئے تو انھوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ ! ( ﷺ) ہم ہفتہ کی تعظیم کیا کرتے تھے اور تورات بھی اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے ۔ کیا ہم رات میں اس کو انجام دے سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآنی آیت کو نازل فرمایا : ’’اے ایمان والو ! اسلام میں کامل طورپر داخل ہوجاؤ ، اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو یقینا وہ کھلا دشمن ہے ‘‘ ۔ (سورۃ البقرہ ۲؍۲۰۸)
( جامع البیان عن تاویل آی القرآن ج : ۳؍۵۹۵۔۶۰۳)
اﷲ تعالیٰ مومنین کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے ایک اہم وصف کی طرف نشاندہی فرماتا ہے : اور یہ وہ لوگ ہیں جو کذاب اور باطل کاموں میں (قولاً و عملاً دونوں صورتوں میں ) حاضر نہیں ہوتے اور جب لایعنی (بیکار) کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو ( دامن بچاتے ہوئے ) نہایت وقار اور متانت سے گزرجاتے ہیں ۔
(الفرقان ۲۵؍۷۲)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ ، ابوالعالیہؒ ، مجاھدؒ محمد بن سیرین ؒ و دیگر اسلاف نے بیان کیا کہ اس آیت میں ذکر کردہ لفظ’’زور‘‘ (یعنی کذب و باطل کاموں سے ) مراد ’’أعیاد المشرکین‘‘ ہے یعنی مومن وہ ہیں جو مشرکین کی عیدوں و تہواروں میں شریک نہیں ہوتے ہیں اور اپنے دامن کو بچاتے ہوئے وہاں سے نہایت وقار سے گزرجاتے ہیں ۔
نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر ارشاد فرمایا : ’’جاہلیت کے ہر قسم کے رسم و رواج ، عادات و اطوار ہر معاملہ میرے قدموں کے نیچے ہے ‘‘۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ ہجرت فرماکر تشریف لائے اور اہل مدینہ دو دن نیروز ( سال کے آغاز کے موقعہ پر ) اور مھرجان ( مطابق ۲۶؍ اکٹوبر ) اس مہینے کا نام ہے جس میں فارس کے ایک بادشاہ کا انتقال ہوا تھا ، کھیلا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : یہ دو دن کیا ہے ؟ ‘‘
انھوں نے کہا : ہم زمانہ جاہلیت میں ان دونوں دنوں میں کھیلا کرتے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان دو دنوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عیدالاضحی اور عیدالفطر عطا فرمائے ہیں۔ ( ان دو دنوں میں مجوس عید منایا کرتے تھے ) ۔ امام ابوداؤد نے اس روایت کو کتاب الصلاۃ باب صلاۃ العیدین میں نقل کیاہے ۔
حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں ’’بوانہ‘‘ مقام میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر کی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا اس مقام میں جاہلیت کے بتوں میں سے کسی بت کی پرستش کی جاتی تھی ۔ عرض کیا گیا : نہیں ! آپ ﷺنے فرمایا : کیا وہاں ان کے عیدوں میں سے کوئی عید ہوتی تھی؟ عرض کیاگیا : نہیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنی نذر پوری کرو ۔ نیز اﷲ کی معصیت میں کوئی نذر پوری کرنا نہیں ہے اور نہ اس میں جس کا انسان مالک نہ ہو ۔ ( ابوداؤد ، کتاب الایمان والنذور ، باب مایؤمربہ من الوفاء )
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : سب کا سب کفار سے ان کے اعمال و افعال میں مشابہت سے بچنا ہے۔ (مرقات المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ج : ۶؍۶۰۸)
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ ۔ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائیگا وہ بھی ان میں سے ہوگا یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا ۔ (المائدۃ ۵؍۵۱)
ابن کثیر نے فرمایا : اس میں کفار سے ان کے اقوال ، افعال ، لباس، عید و تہوار ، عبادات وغیرہ دیگر اُمور جو ہمارے لئے مشروع نہیں اور نہ ان پر ہماری شریعت میں اقرار ہو سخت ممانعت اور تنبیہ و وعید ہے ۔
( تفسیر ابن کثیر ۱؍۱۴۹)
حضرت عمرو بن شعیب عن ابیہ وعن جدہ روایت ہے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم میں سے نہیں وہ شخص جو ہمارے غیر سے مشابہت رکھے ۔ یہود اور نصاری سے مشابہت مت اختیار کرو ‘‘۔ ( ترمذی ابواب الاستئذان والآداب باب ما جاء فی کراہیۃ إشارۃ الید بالسلام)اور ایک روایت میں نبی اکرم ﷺ نے واضح ارشاد فرمایا : ’’ہمارا طریقہ مشرکین کے طریقہ کے خلاف ہے ‘‘۔(مسند امام الشافعی ج : ۱؍۵۳۱ کتاب الحج )۔