افغان خواتین کا سرخ لپ اسٹک لگاکر انوکھا احتجاج

   

کابل : 6 جون ( ایجنسیز ) افغان طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996-2001) کے بعد جب امریکی سرپرستی میں کابل میں ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی تو افغان خواتین نے تعلیم اور مختلف شعبوں میں نمایاں شمولیت اختیار کی۔ یہاں تک کہ سابق صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں خواتین سیاست اور سفارتکاری میں بھی نظر آئیں۔لیکن جب 15 اگست 2021 میں طالبان نے ایک مرتبہ پھر کابل کا کنٹرول حاصل کیا تو اس مرتبہ بتدریج ملک کی عوامی زندگی کے منظر نامے سے خواتین کو غائب کر دیا گیا اور ان کو چادر و چاردیواری تک محدود کیا جس پر اقوام متحدہ نے کہا کہ طالبان کی جانب سے افغان خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک جنس پر مبنی امتیاز یا ’جینڈر اپارتھائیڈ‘ کے برابر ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے حقوق کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔تاہم طالبان حکام کا کہنا ہے کہ ’اسلامی امارت اسلامی شریعت کے تحت خواتین کو دیے گئے حقوق کی فراہمی اور حفاظت کی مکمل ذمہ دار ہے۔‘ اور موجودہ دور میں ’خواتین کے خلاف تمام قسم کے تشدد اور زیادتی کو موثر طریقے سے روکا گیا ہے۔‘افغان خواتین کی حالت زار سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے بیرون ملک مقیم (جلا وطن) افغان خواتین مختلف پلیٹ فارمز پر آواز بلند کر رہی ہیں اور ان کے حقوق کے لیے مسلسل آواز بلند کر رہی ہیں۔مارچ سے بیرون ملک مقیم افغان خواتین نے ’ریڈ فار افغانستان ویمن‘ اور ’مائی لپس مائی وائس‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک نئی آن لائن مہم شروع کی جس میں وہ سرخ لپ سٹک لگا کر افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی صورتحال سے متعلق دنیا کو آگاہ کر رہی ہیں۔اس سے قبل بھی افغان خواتین نے گانوں، روایتی لباس، ’خطِ سرخ من‘ اور سرخ گلاب جیسی ا?ن لائن مہمات کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ڈنمارک میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن اور غیرسرکاری ادارے ’امپاورمنٹ فار ہَر‘ کی مینجنگ ڈائریکٹر تہمینہ سالک نے رواں برس سرخ لپ سٹک لگا کر’ریڈ فار افغانستان ویمن‘ اور ’مائی لپس مائی وائس‘ کا آغاز کیا اور ایک ویڈیو پوسٹ کی کہ ’سرخ لپ سٹک کو خواتین کی تحریکوں کی تاریخ میں ہمیشہ طاقت اور مزاحمت کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ۔