افغانستان کی صورتحال پر آج ساری دنیا کی نظر ہے ۔ خاص طور پر سارے جنوبی ایشیا کے حالات افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ علاقہ کا امن و سکون اور استحکام افغانستان کی صورتحال پر منحصر ہوسکتا ہے ۔ خود افغانستان میں جو حالات ہیں اس پر بھی طالبان کوایک ذمہ دارانہ رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب جبکہ سارے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے ۔ امریکہ وہاںسے واپس ہوچکا ہے ۔ تمام مغربی ممالک اپنی اپنی افواج نکال لے جا چکے ہیں۔ خود افغانستان کے صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ وہاں حکومت نام کا کوئی نظم باقی نہیں رہ گیا ہے اور ہر طرف طالبان نے اپنا قبضہ جمالیا ہے تو ایسے میں طالبان ہی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانستان کے داخلی حالات کوفوری سے پیشتر بحال کرنے پر توجہ مرکوز کریں اور ساتھ ہی عالمی برداری اور خاص طور پر جنوبی ایشیاء کے ممالک کو یہ یقین دلائیں کہ وہ بین الاقوامی امن و قانون کے پابند رہیں گے اور کسی ملک یا علاقہ کے استحکام کیلئے خطرہ نہیں بنیں گے ۔ افغانستان میں آج افرا تفری اور گہما گہمی کا ماحول بنا ہوا ہے ۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہے ۔ حکومت کا وجود ختم ہوچکا ہے ۔ طالبان چونکہ اب تقریبا ہر اہم مقام پر اپنا تسلط جما چکے ہیںایسے میں انہیں حکومت سازی پر توجہ کرنے اور ملک کے حالات کو معمول پر لانے اور جاری و ساری کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ہندوستان کیلئے افغانستان کے حالات باعث تشویش ہیں۔ طالبان کو چاہئے کہ وہ علاقہ میںہندوستان کی اہمیت اور اس کے مفادات کو تسلیم کرے اور ہندوستان کے ساتھ بھی بہتر اور عالمی قوانین کے مطابق تعلقات استوار کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ طالبان کو علاقہ میںکسی اور ملک کی اجارہ داری کو تسلیم کرنے اور کسی کے اشاروں پر کام کرنے کی بجائے ہندوستان کے ساتھ راست اور امن پر مبنی تعلقات کا عہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ افغانستان کی تعمیر نو اور استحکام میں ہندوستان نے اب تک بھی ایک اہم رول نبھایا ہے اور مستقبل میں بھی نبھا سکتا ہے ۔ ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات خود افغانستان کے مفاد میں ہونگے ۔
جہاں تک افغانستان کے داخلی حالات کا سوال ہے ان پر سب سے پہلے توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سابقہ حکومتوں کے جو ذمہ داران ملک میں مقیم ہیںاور جنہوں نے راہ فرار اختیار نہیں کی ہے ان سے مشاورت کے ذریعہ طالبان کو حکومت سازی پر توجہ کرنی چاہئے ۔ ملک میں امن و سکون قائم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ نراج کی کیفیت کو جلد از جلد ختم کرتے ہوئے معمول کی زندگی بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو شبہات لا قانونیت کے ظاہر کئے جا رہیں ان کا ازالہ کیا جانا چاہئے ۔ خواتین کے معاملے میں خاص طور پر طالبان کو میانہ روی والا رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ ان کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ انہیں بھی سماج میں محترم مقام دیا جانا چاہئے ۔ جو شرعی حدود و پابندیاں ہیں ان کی تکمیل کرتے ہوئے خواتین کو عزت و احترام کی زندگی دی جاسکتی ہے اور دی جانی چاہئے ۔ تعلیم کے مواقع سے انہیں محروم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ان کی صلاحیتوں سے بھی استفادہ کرتے ہوئے ملک کی تعمیر نو میںانہیں اہم مقام دیا جاسکتا ہے ۔ خود افغان عوام کو بھی یہ طمانیتش دلانے کی ضرورت طالبان اب وہ نہیں رہے جو دو دہے قبل رہے تھے ۔ اب وہ زیادہ فہم و فراست کے ساتھ امور حکومت چلا سکتے ہیں اور عوام کو ایک پرسکون ماحول فراہم کرتے ہوئے ملک کی ترقی کی راہیں تلاش کرنے میں ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ جنگ و جدال کا دور ختم ہوچکا ہے ۔ تباہی و بربادی کی ایک طویل داستان جو رہی تھی اب اس باب کو بند کیا جاچکا ہے ۔
طالبان کو عالمی سطح پر بھی اپنے آپ کو منوانے کی ضرورت ہے ۔ اس کیلئے انہیں شدت پسندی کی بجائے حکمت عملی اور میانہ روی کی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے ملک میں معمول کی زندگی بحال کی جانی چاہئے ۔ معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جنگ و جدال کی وجہ سے جو تباہی ہوئی ہے اس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ملک کی اور عوام کی تعمیر نو کا آغاز کیا جانا چاہئے ۔ اس کام میں علاقہ کے تمام ممالک سے تعاون لیا جاسکتا ہے ۔ سبھی ممالک سے دوستانہ اور امن پر مبنی تعلقات قائم کئے جانے چاہئیں۔ ہتھیاروں کی زبان بات نہیں ہونی چاہئے ۔ باہمی عزت و احترام کی بنیادوں پر تعلقات استوار کرتے ہوئے مستقبل کو تابناک بنانے کی سمت پہل کی جاسکتی ہے ۔
