اقامتی اسکولس ومارکٹس کے بعد اب منی حج ہاوز کیلئے بھی وقف اراضیات کا حصول

,

   

٭ بورڈ سے قیمتی اراضیات کی حوالگی منشائے وقف کی خلاف ورزی
٭ شہر میں حج ہاوز کا ہی مکمل استعمال نہیں ۔ محض دفاتر چلانے پر اکتفاء
٭ دیگر دفاتر سے آمدنی کے استعمال پر بھی حکام وضاحت سے قاصر

محمد مبشرالدین خرم
حیدرآبا۔یکم جنوری: حکومت ریاست کے مختلف اضلاع میں اوقافی اراضیات کو تلنگانہ اقلیتی اقامتی اسکولوں کے علاوہ مارکٹ کے نام پر حاصل کرنے کے بعد اب ’ منی حج ہاؤز‘ کے نام پر حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور وقف بورڈ کی جانب سے حکومت کی تجاویز کو قبول کرکے انتہائی قیمتی اراضیات منی حج ہاؤز کیلئے حوالہ کی جانے لگی ہیں جو کہ منشائے وقف کی صریح خلاف ورزی کے علاوہ ریاست میں موجود اوقافی جائیدادوں کی تباہی کے مترادف ہے۔ 2002 میں تلگو دیشم حکومت میں شہر میں حج ہاؤز کی تعمیر کیلئے ’رزاق منزل ‘ کا انتخاب کرکے منزلہ عمارت کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا اور احمد شریف لائبریری کیلئے موقوفہ قلب شہر میں واقع انتہائی قیمتی اراضی پر حج ہاؤز کی تعمیر عمل میںلائی گئی اور اس وقت کے اعتراضات پر وقف بورڈ اور حکومت نے عدالت میں طمانیت دی تھی کہ احمد شریف لائبریری کو برقرار رکھا جائے گا اور اس اوقافی جائیداد کی ملکیت میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی بلکہ حج ہاؤز کی عمارت میں جو دفاتر چلائے جارہے ہیں ان سے ہونے والی آمدنی سے مسلم طلباء وطالبات کو تعلیمی وظائف کی فراہمی عمل میں لائی جائیگی ۔ اس طمانیت کے بعد حج ہاؤز کی تعمیر میں حائل رکاوٹیں دور ہوئیں لیکن اس کے بعد شائد حکومت اور وقف بورڈ نے ’رزاق منزل‘ کے منشائے وقف کو فراموش کردیا ہے کیونکہ حج ہاؤز کی عمارت میں موجود لائبریری تشکیل تلنگانہ کے بعد غائب ہوچکی ہے اور اس میں جہاں زائد از 5000 کتب موجود تھے وہ کس حالت میں اور کہاں ہیں اس کا کسی کو علم نہیں ہیں ۔ تشکیل تلنگانہ سے قبل تک حج ہاؤز کی عمارت میں یہ لائبریری موجود تھی لیکن اب موقوفہ اراضی کے منشائے وقف کو خود وقف بورڈ نے فراموش کردیا ہے۔ حکومت اور بورڈ کی جانب سے حج ہاؤز میں برسر کار دفاتر کے کرایہ کو کس مد میں خرچ کیا جا رہاہے اس کے متعلق بھی کوئی جواب دینے سے قاصر ہے بلکہ بعض اداروں سے برسوں سے کرایہ وصول نہیں ہوپایا ہے جس کے سبب طلباء و طالبات کو تعلیمی وظائف کی اجرائی نہیں ہو پار ہی ہے ۔ 11 منزلہ حج ہاؤز عازمین حج کی روانگی کے دوران مکمل استعمال کی جاتی ہے اس کے علاوہ زائد از5 منزلیں مکمل 11ماہ سے زیادہ خالی رہتی ہیں ۔ شہر میں جہاں سے عازمین روانہ ہوتے ہیں وہاں حج ہاؤز کی یہ حالت ہے کہ اس عمارت کو سال بھر استعمال نہیں کیاجاسکتا تو ایسے میں اضلاع میں ’منی حج ہاؤز‘ کی تعمیر کے نام پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انہیں حج ہاؤز کی تعمیر کے ذریعہ خوش کیا جاسکے۔ وقف بورڈ اگر حکومت کی تجویز میں ترمیم کی سفارش کرکے ’منی حج ہاؤز‘ کی بجائے تمام میں وقف بورڈ کی اراضیات پر مسلمانوں کیلئے اسٹڈی سرکل کی تعمیر کے اقدامات کرتا ہے تو یہ اسٹڈی سرکل سال بھر قابل استعمال رہیں گے اور ان کے ذریعہ نوجوانوں کی تعلیمی ترقی کے اقدامات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ حیدرآباد میں ’حج ہاؤز‘ کی عمارت جو وقف بورڈ کی ملکیت ہے اس میں موجود مخلوعہ حصوں کو مسلم اسٹڈی سرکل کے علاوہ انسٹیٹیوٹ اور خصوصی کلاسس کے ساتھ اضلاع سے آنے والے تاجرین کیلئے کرایہ پر دے کر آمدنی کو منشائے وقف کے مطابق خرچ کیا جاسکتا ہے ۔ وقف بورڈ کے بعض ملازمین غیر مجاز طور پر حج ہاؤز کی بالائی منزلوں پر موجود کمروں کا اپنی رہائش کے طور پر استعمال کر رہے ہیں حالانکہ کمروں کا سال میں 11ماہ کیلئے بوائز ہاسٹل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اور حج ہاؤز کی احمد شریف لائبریری کے ازسرنو افتتاح کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو کئی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ اگر وقف بورڈ سے لائبریری میں مسابقتی امتحانات کی تیاری کررہے طلبہ کیلئے سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں تو ’رزاق منزل‘ کے واقف کا منشائے وقف بھی پورا ہوگا اور ملت کے نوجوانوں کی مستقبل کو بہتر بنانے پیشرفت بھی ہوپائے گی۔ شہر سے عازمین حج کی روانگی کیلئے اس مقام کے علاوہ مختلف اضلاع میں ’منی حج ہاؤز ‘ کے نام پر اوقافی جائیدادوں کو حاصل کرنے کی کوششوں کے متعلق امت مسلمہ بالخصوص ضلعی قائدین کو چوکس رہتے ہوئے منی حج ہاؤز کی بجائے اسٹڈی سرکل وغیرہ کے آغاز کا مطالبہ کرنا چاہئے تاکہ اضلاع میں اوقافی جائیدادوں کو اقلیتی صنعتی و تعلیمی ترقی کیلئے استعمال کیا جاسکے اور ان سے آمدنی کو منشائے وقف کے مطابق خرچ کیا جاسکے ۔