ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا فاضلہ امۃ الصبیحہ

   

ام المؤمنین حضرت سوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کا نام زمعہ اور آپ کی والدہ کا نام شموس بنت عمرو تھا۔ آپ کا تعلق قریش کے خاندان بنو عامر سے تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آنے سے پہلے آپ اپنے چچا زاد بھائی حضرت سکران بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ آپ نے اپنے شوہر حضرت سکران کے ساتھ حبش کو ہجرت کی اور حضرت سکران بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کا حبش میں انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں اور چار سو درہم مہر قرار پایا۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد سب سے پہلے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن خولہ بنت حکیم کے مشورہ سے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا۔ نکاح کے وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر تقریباً برابر تھی، یعنی نکاح کے وقت حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر مبارک ۵۰ یا ۵۱ سال تھی۔ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بلند قامت اور فربہ اندام تھیں۔ اطاعت و فرماں برداری میں اپنی مثال آپ تھیں، جب کہ سخاوت اور فیاضی آپ کا نمایاں وصف تھا۔
ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سخاوت و فیاضی کا ایک واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی خدمت میں درہم سے بھری ہوئی ایک تھیلی بھیجی۔ غلام تھیلی لے کر جب حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا ’’کیا عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کھجوریں بھیجی ہیں؟‘‘۔ غلام نے عرض کیا ’’نہیں، یہ درہم ہیں‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’کھجوریں ہوتیں تو کھا لیتی، درہم ہمارے لئے کس کام کے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے تمام درہم محتاجوں میں تقسیم کردیئے۔
ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پانچ احادیث مروی ہیں، جن میں سے ایک بخاری شریف میں ہے۔ آپ کا وصال ماہ شوال المکرم سنہ۵۲ھ میں ہوا اور مزار مقدس جنت البقیع میں ہے۔