ایک عرصہ تلک اجنبی وہ رہے
کیسا دھوکا یہ ہم سے ہوا دیکھئے
دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھے جانے والے امریکہ میں انتخابی ماحول شدت اختیار کر گیا ہے اور اب یہ اختتامی مراحل میں پہونچ رہا ہے ۔ دونوں امیدواروں کملا ہیرس اور ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے آخری لمحات کی مہم میں تیزی پیدا کردی گئی ہے اور وہ اپنے اپنے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں مہم پر زیادہ توجہ دینے لگے ہیں تاکہ ان کا اپنا ووٹ بینک مضبوط رہ سکے ۔ اس کے علاوہ دونوں ہی امیدواروں کی جانب سے ایک دوسرے کو ان کی پالیسیوں اور پروگرامس کی بنیادوں پر نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا سلسلہ بھی چل رہا ہے ۔ ایک دوسرے کو ترقی اور دوسرے امور کو بنیاد بناتے ہوئے رائے دہندوں کی نظر میں کمزور کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ گذشتہ چند دہوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اس بار کی امریکی صدارتی انتحابی مہم انتہائی شدت کے ساتھ چلائی گئی ہے اور یہ اب بھی چلائی جا رہی ہے ۔ امریکہ میں 5 نومبر کو رائے دہی ہونے والی ہے اور بیالٹ ووٹ ڈالنے کا سلسلہ ابھی سے شروع ہوچکا ہے ۔ ووٹوں کی گنتی کا جہاں تک سوال ہے تو اس کا آغاز 5 نومبر ہی سے ہو جائے گا اور باضابطہ نتائج کے اعلان کیلئے چند دن درکار ہوسکتے ہیں کیونکہ امریکہ میں اب بھی بیالٹ پیپر پر ہی انتخابات لڑے جاتے ہیں۔ ان کو یکجا کرنے اور پھر ان کی گنتی کیلئے وقت درکار ہوسکتا ہے ۔ پوسٹل بیالٹ کے تعلق سے امریکہ کے ہی ایک نیوز چینل نے انکشاف کردیا کہ اس میں کملا ہیرس کو سبقت حاصل ہوئی ہے ۔ حالانکہ بعد میں چینل نے واضح کردیا کہ یہ اتفاق سے ظاہر ہوگئے اعداد و شمار ہیں اور یہ پوری گنتی نہیں ہے ۔ چینل نے اس افشاء پر معذرت خواہی کرتے ہوئے دوبارہ اس کا اعادہ نہ کرنے کا تیقن بھی دیا ہے ۔ جہاں تک آخری لمحات کی انتخابی مہم کا سوال ہے تو یہ انتہائی تیز ہوگئی ہے اور اس میں شدت پیدا کردی گئی ہے ۔ دونوںہ ی امیدوار اس انتخاب میں کامیابی کیلئے کوئی کسر باقی رکھنا نہیںچاہتے اور لمحہ آخر تک بھی وہ رائے دہندوں کو رجھانے ‘ راغب کرنے اور ان کی تائید حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آخری لمحات میں دونوں ہی امیدوار اپنے اپنے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ووٹرس کو راغب کرنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں جو ان سے ناراض ہیں۔ ایک طرف کملا ہیرس مشیگن ریاست پر اب زیادہ توجہ دے رہی ہیں کیونکہ یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ وہاں انہیں عرب امریکیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کی امریکہ نے حسب روایت مدد کی ہے ۔ جہاں تک ڈونالڈ ٹرمپ کا سوال ہے تو وہ جارجیا پہونچ گئے ہیں اور وہاں وہ مذہبی قائدین سے ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔ وہ بنیاد پرست مذہبی طاقتوں کی تائید جٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بار کی انتخابی مہم میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دونوں ہی امیدواروں نے روایات سے انحراف کرتے ہوئے معمولی سے مسائل پر بھی ایک دوسرے کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تو امریکہ کے کچھ شہروں میں کچرے کی نکاسی جیسے مسائل پر بھی بائیڈن انتظامیہ کو نشانہ بنایا اور کچرا صاف کرنے والا ٹرک چلاکر مہم چلائی ۔ انہوں نے اسقاط حمل جیسے حساس نوعیت کے مسئلہ پر بھی کملا ہیرس کو نشانہ بنایا ہے اور اس معاملے میں انہیں ریاڈیکل قرار دینے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ کملا ہیرس اس مسئلہ پر ‘ جو لاکھوں امریکیوں کو درپیش ہے ‘ اپنے موقف کی مدافعت کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں ایسے مسئلہ کو الجھن آمیز بناتے ہوئے ٹرمپ امریکہ کو اٹھارہویں صدی میں لیجانا چاہتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی یہ انتخابی مہم ہمیشہ سے مختلف رہی ہے اور اس بار ایک اور خاص بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ سابق صدر بارک اوباما نے بھی کملا ہیرس کی تائید میں پوری شدت کے ساتھ حصہ لیا ہے ۔ بارک اوباما کی شریک حیات مشیل اوباما بھی میدان میں نظر آئیں جبکہ ٹرمپ پوری مہم اپنے اطراف چلا رہے ہیں۔ بحیثیت مجموعی امریکی صدارتی انتخاب 2024 انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ نہ صرف امریکی عوام کیلئے بلکہ دنیا بھر کیلئے اہمیت رکھتا ہے ۔ امریکہ پرا س کے اثرات یقینی طور پر ہونگے ہی تاہم دنیا پر بھی اس کے اثرات ہوسکتے ہیں اور ساری دنیا کو ان صدارتی انتخاب کے نتائج کا شدت سے انتظار رہے گا ۔