غضنفر علی خان
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ 36 گھنٹے کے لئے ہندوستان کے دورے پر آئے، اُن کی خوشامد درآمد کرنے میں مودی حکومت نے کوئی کسر نہ چھوڑی، صدر امریکہ اپنے ملک کی خاتون اوّل کے ساتھ ہندوستان کے دورے پر تھے لیکن ان کے اعزاز میں جو جو تقاریب منعقد ہوئیں اُن سب پر دہلی میں ہوئے بھیانک فساد نے پانی پھیر دیا۔ یوں تو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہر روز کئی شہروں میں احتجاج ہورہا ہے اور اس احتجاج کا مخصوص پہلو یہ ہے کہ اِس میں ملک کی خواتین خاص دلچسپی لے رہی ہیں لیکن دہلی کے شاہین باغ نے ہندوستان کے ضمیر کو بیدار کردیا ہے اور یہی شاہین باغ نے فی الواقعی علامہ اقبالؔ کے شاہین کی طرح اپنی بلند پروازی دکھا دکھاکر حکومت کی نیندیں حرام کردی ہے۔ٹرمپ کے اس دورے کے مقاصد کچھ اور رہے ہوں گے۔ دارالحکومت دہلی میں اتوار، پیر اور منگل کو ہوئے فساد نے کچھ اور اُجاگر کردیا ہے۔ دہلی کے فساد کا ایک انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس فساد کو دہلی پولیس اور مودی حکومت نے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں ان دنوں آگ دہک رہی ہے۔ اس پر قابو پانے کی کوئی منظم کوشش نہ ہوپائی ہے۔ ابھی تک (تادمِ تحریر) گیارہ افراد ہلاک اور 250 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ اگر فساد کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ فساد موافق سی اے اے قانون اور مخالف قانون کے حامیوں کے درمیان جاری ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی صحافیوں نے اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ موافق اور مخالف سی اے اے کے درمیان فساد یا جھڑپ انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی اور یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا ہے۔ اِن دونوں گروپس میں ابھی تک کوئی راست تصادم نہیں ہوپایا تھا تو پھر کیوں دارالحکومت دہلی میں ایسا راست ٹکراؤ ہوا ہے۔ دہلی پولیس عملاً مرکزی حکومت کے زیرسایہ ہے۔ دہلی کی ریاستی حکومت اور چیف منسٹر کجریوال اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے کیوں کہ پولیس پر دہلی حکومت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اب دہلی کے جاریہ فساد کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ صورتحال صرف دہلی اور اطراف کے علاقوں تک ہی کیوں پیدا ہوئی ہے …؟ ایک خیال یہ بھی ہے کہ دہلی کے فسادات مرکزی حکومت کی ایک منظم سازش کا نتیجہ ہے ورنہ سی اے اے کی تائید اور مخالفت میں کبھی گزشتہ ستر دنوں سے کوئی فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیکھا گیا۔ مخالف قانون احتجاجیوں نے کبھی تشدد کی راہ اختیار نہیں کی۔ اچانک صدر امریکہ کے دورے کے موقع پر کیوں یہ فساد کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے کونسی اور کس کی سازش کارفرما ہے۔ اس کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں ایک نئی خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ قانون کے مخالف افراد کسی بھی قیمت پر خاموش نہیں بیٹھیں گے جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ اُن کا احتجاج جاری رہے گا۔ یہ بات ہندوستانی عوام کو پہلے ہی سمجھ لینی چاہئے تھی کہ بے حس قائدین کو اقتدار سونپنے کا کیا نتیجہ اور انجام ہوتا ہے۔ عوام طرح طرح سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ مذکورہ قانون اُن کے حق میں نہیں ہے۔ اس قانون کے ڈھانچے کو بنانے والے وزیرداخلہ امیت شاہ کی ضد ہے کہ وہ اس کے نفاذ کے معاملہ میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ابھی تک 23 انسانی جانیں ان مظاہروں میں تلف ہوچکی ہیں اور امیت شاہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے جو اس بات کا بین ثابت ہے کہ مودی حکومت کو انسانی جانوں کے ہلاک ہونے کا کوئی ذرہ برابر افسوس نہیں ہے۔ بی جے پی کے ایک لیڈر نے ان حالات کے باوجود یہ کہا ہے کہ احتجاجیوں کو سبق سکھایا جائے گا۔ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ یہی بات و الفاظ 2002 ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں امیت شاہ نے بھی کہی تھی۔ امیت شاہ گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران وہاں کے ریاستی وزیرداخلہ تھے۔ ایک کمیونسٹ پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نے مجھ احقر سے کہا تھا کہ جب اُنھوں نے دہلی سے گجرات کے اُس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی سے گجرات میں خون خرابہ اور مسلم کشی کے بارے میں ٹیلیفون پر کچھ سوالات کئے تھے تو مودی نے بھی یہی کہا تھا کہ مسلمانوں کو سبق سکھانا ہے۔ وہی ذہنیت، وہی انداز طرز و فکر دہلی میں بھی پائی جارہی ہے۔ آج جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی خاطر داری کی گئی ہے، اسی ملک کے سابق صدور نے حکومتی فیصلے کے تحت مودی کے امریکہ میں داخل ہونے کی پابندی لگائی تھی۔ اب وہی نریندر مودی آنکھیں بچھاکر اُسی ملک کے صدر کی آؤ بھگت کئے ہیں۔ کئی سال تک مودی کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی تھی۔ آج ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ اُسی امریکہ کے صدر کی شان و شوکت میں یہی مودی ’’فرشِ دیدۂ و دل‘‘ بچھارہے ہیں۔ اب قریب ماضی کو اس طرح فراموش کرکے اگر مودی اور اُن کی حکومت نے اپنے خیال میں کوئی قابل تعریف کام کیا ہے تو اس سے زیادہ افسوسناک بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ دہلی کے شمال مشرقی ضلع جعفرآباد میں اور آج کے فسادات سے متاثرہ اسی علاقہ کے دیگر اضلاع میں مسلم آبادی زیادہ رہا کرتی ہے۔ ان جاریہ فسادات میں دہلی پولیس نے آر ایس ایس و بجرنگ دل کے غیر سماجی عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ بہت کم فسادات ایسے ہوئے جن میں عوام نے اسلحہ کا استعمال کیا ہو۔ آج جعفر آباد اور موج پور میں علی الاعلان عوام اسلحہ کا استعمال کررہے ہیں۔ لاٹھی، تلوار اور گولی اس فساد میں خوب استعمال ہورہے ہیں۔ گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں زیادہ تر تعداد کی موت واقع ہوئی ہے۔ ایک پولیس کانسٹبل کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ بیسیوں پولیس جوانوں کو ہجوم نے گولیوں سے زخمی کردیا۔ سی اے اے کے حامیوں نے نہ تو کبھی کوئی فساد کیا تھا اور نہ کوئی اِن کے پاس ہتھیار تھے، پھر یہ کون لوگ ہیں جو مسلح ہوکر لوٹ مار آتشزنی مچاکر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ کیوں ایک ہی طبقہ کے آبادی والے ان متاثرہ علاقوں میں یہ خون خرابہ پیدا ہورہا ہے۔ اگر یہ سوچی سمجھی چال و سازش نہیں ہے تو پھر اس کو کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ لیکن امیت شاہ اور مودی اس تلخ حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ یہی فرقہ پرست طاقتوں کو اگر آزادی دی گئی تو اس ملک کا کیا حشر ہوگا۔ پولیس کا فلیگ مارچ بے اثر ثابت ہوا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نقاب لگاکر آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے غنڈہ عناصر گھروں کو آگ لگارہے ہیں۔ بستیوں کو اُجاڑ رہے ہیں۔ دوکانات جو مسلمانوں کی ہیں، لوٹ مار کررہے ہیں اور کیوں مرکزی حکومت ان پر خاموش تماشائی بنی بیٹھ کر قابو نہیں پارہی ہے۔ اگر مزید کچھ دن تک شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں ایسے ہی حالات رہے تو اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ فرقہ پرست عناصر اور عام شہریوں کے درمیان باقاعدہ جھڑپیں ہونے لگیں گی اور ملک کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ انگریزی زبان کے ایک صحافی نے بڑے پتہ کی بات کہی ہے کہ’’ دہلی کے یہ فسادات ملک میں انتہا پسندوں اور تشدد کی سیاست کا نقطہ آغاز ہوگا‘‘۔ کدھر سی اے اے کی مدافعت کا معاملہ اور کدھر یہ انتہائی ہلاکت خیز خدشہ سچ ثابت ہوگا۔ اب بھی یہ موقع ہے کہ بی جے پی کی حکومت انسانی زندگیوں اور ملک کی یکجہتی کو اولیت دیتے ہوئے اس قانون کو واپس لے لے ورنہ یہ چنگاریاں ایک آتش فشاں کی طرح ملک کو سخت نقصان پہنچانے کی وجہ بن جائیں گی۔ اس وقت تو صرف خیر کی دعا مانگی جاسکتی ہے۔