امریکی صدر ٹرمپ کا اب ایران پر دباؤ

   

کوئی تم سا بھی کاش تم کو ملے
مدعا ہم کو انتقام سے ہے
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی دوسری معیاد میں دنیا کے تقریبا ہر خطہ پر توجہ دیتے ہوئے احکام جاری کر رہے ہیں اور دباؤ بنانے کی حکمت عملی بناتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے کناڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا ۔ پھر انہوں نے ایک جزیرہ حاصل کرلینے کا اعلان کیا ۔ پھر غزہ پٹی کو حاصل کرلینے اور غزہ کے فلسطینی شہریوں کو دوسرے ممالک میں آباد کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا ۔ انہوں نے امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وائیٹ ہاوز کے اوول آفس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ جارحانہ تیور اختیار کرتے ہوئے انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کی ۔ بعد میں زیلنسکی کے تیور میں بھی نرمی پیدا ہوئی اور وہاں امریکہ اپنا دباؤ بناتے ہوئے اپنے منصوبوںکو پورا کرنے میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اسی طرح اب ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران پر توجہ مرکوز کی ہے ۔ انہوں نے ایران پر دباؤ بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ نیوکلئیر معاہدہ کیلئے ایران کو بھی مفاہمت کرنی ہوگی ۔ حالانکہ ایران نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا ہے اور نہ ہی امریکی دباؤ تسلیم کرنے کا کوئی اشارہ دیا ہے تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ ایک بار پھر ایران کے خلاف سفارتی محاذ آرائی کا ارادہ رکھتا ہے اور علاقہ میںاپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ایران کے خلاف اپنے عزائم اور ایجنڈہ کی تکمیل کرنے کے منصوبوں پر عمل کرسکتا ہے ۔ امریکہ کے حواری گوشوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ایران ۔ امریکہ نیوکلئیر مفاہمت کو دوسرا موقع دیا جانا چاہئے اور کوئی قابل قبول حل دریافت کیا جاسکتا ہے ۔ ان حواریوں کا کہنا ہے کہ ایران کو اس پیشکش کو یکسر مسترد کرنے کی بجائے اس پر غور کرتے ہوئے بات چیت کا راستہ اختیار کیا جاناچاہئے ۔ یہ وہی حواری ہیں جو ہر حال میں امریکہ کو ہی درست قرار دیتے ہیں اور اس کی مدح سرائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ ان کا مشورہ قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ ایران کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ امریکہ کی دباؤ اور جبر کی پالیسی کو قبول کرنے تیار نہیں ہوگا ۔
جہاں تک ڈونالڈ ٹرمپ کا سوال ہے تو یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ ایران کے تعلق سے ان کے عزائم درست نہیں ہیں کیونکہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے ایران کے مغربی طاقتوں کے ساتھ طئے پائے نیوکلئیر معاہدہ کو ناکام بنایا تھا ۔ یہ معاہدہ بارک اوباما کے دور میں طئے پایا تھا تاہم جب 2017 میں ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے 2018 میں یکطرفہ طور پر اس نیوکلئیر معاہدہ سے امریکہ کی علیحدگی کا اعلان کردیا تھا ۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ایران پر مسلسل دباؤ ڈالا تھا کہ وہ امریکہ کی شرائط پر کوئی مفاہمت کرلے تاہم ایران نے اس وقت بھی اس دباؤ کو تسلیم نہیں کیا تھا ۔ اب ٹرمپ نے ایران کے روحانی آیت اللہ علی خامنہ ای کو مکتوب روانہ کیا ہے اور ان کو انتباہ دیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کا احیاء کرے یا پھر فوجی کارروائی کا سامنا کرے ۔ایران نے زیادہ وقت نہ لیتے ہوئے محض دو دن میں اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے اور کہا کہ کچھ طاقتیں ہیں جو چاہتی ہیں کہ باتچ یت شروع کی جائے ۔ تاہم ان حکومتوں کا مقصد اس مسئلہ کو حل کرنا نہیں بلکہ اپنی شرائط اور معاملتیں عائد کرنا ہے اور ایران اس طرح کے طرز عمل کو قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ ایران کا یہ رد عمل حیرت کا باعث نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ایران اس معاملے میں دو ٹوک موقف رکھتا ہے اور اس نے جو اندیشے ظاہر کئے ہیں کہ امریکہ مسئلہ کی یکسوئی سے زیادہ اپنا دباؤ اور شرائط منوانا چاہتا ہے وہ بڑی حد تک درست بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں۔
ایران کی مغربی طاقتوں کے ساتھ جو مفاہمت ہوئی تھی وہ اہمیت کی حامل تھی ۔ اس معاملت کے تحت ایران کو نیوکلئیر ہتھیار تیار کرنے سے روکا جارہا تھا اور اس کے بدلے میں ایران پر جو بین الاقوامی تحدیدات عائد ہیں ان کو برخواست کیا جانا تھا جو بتدریج تھا ۔ تاہم اس معاہدہ کو ناکام بنانے والے ٹرمپ اب خود معاہدہ کی بات کر رہے ہیں تو اس پر ایران اور اس کے قائدین کو شبہات کا لاحق ہونا فطری عمل ہے ۔ ٹرمپ کو پہلے یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ انہوں نے پہلے معاہدہ کو کیوں مسترد کردیا تھا ۔ کیوں اس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور اب انہوں نے بات چیت کی جو پیشکش کی ہے اس کے مقاصد کیا ہے ۔