امیت شاہ کا اعتراف کفر ٹو ٹاخداخدا کرکے

   

غضنفر علی خاں
دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج کے بعد پہلی مرتبہ بی جے پی کے سابق صدر اور موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعتراف کیا کہ پارٹی کے بعض لیڈرس نے اپنی تقاریر میں ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے جس کی وجہ سے پارٹی کو شدید نقصان پہنچا، حالانکہ اس بات کا اندازہ تو امیت شاہ اور وزیراعظم نریندر مودی کو انتخابی مہم کے دوران ہی ہوگیا تھا۔ سی اے اے کی مخالفت کرنے والے عوام دو ماہ سے زائد عرصہ سے پورے ملک میں احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا بیک زبان یہ مطالبہ ہے کہ شہریت دستوری ترمیم سے متعلق قانون کو واپس لیا جائے لیکن اس شدید احتجاج کے باوجود حکومت، وزیر داخلہ اور وزیراعظم مودی کی کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس انتخابی مہم میں بی جے پی نے سَر دھڑ کی بازی لگا دی۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آتے گئے، بی جے پی کے لیڈرس نے اتنی ہی بدکلامی اور غیردستوری زبان استعمال کرنا شروع کردی۔ احتجاج کرنے والوں کو ہر طرح سے مجبور کیا گیا ، انہیں گولی مار دینے کی دھمکی بھی دی گئی۔ یونیورسٹی کے کیمپس میں ہر طرح کی ہراسانی پیدا کی گئی، بار بار مسلمانوں کو پاکستان کے ہمدرد قرار دے کر انہیں سر بازار رسواء کیا گیا۔ یوں تو احتجاج ساری ہندوستانی قوم کررہی ہے لیکن الزام صرف مسلمانوں کو دیا جارہا ہے اور جو نفرت بی جے پی کے سرشت اور ڈی این اے میں ہے، اس کا کھل کر مظاہرہ کیا گیا۔ کئی سیاسی پارٹی کے لیڈرس نے جن میں دبے سُروں میں بولنے والے اور کھلے بندوں میں اعتراض کرنے والوں میں نفرت کی اس مہم پر خوب تبصرے بھی کئے ’’گولی مارو‘‘ ایک ایسا ریمارک یعنی طنز تھا جو پارٹی کے تجربہ کار واہم کیڈرس نے کیا۔ سوال یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو کیوں گولی ماری جائے۔ کیا جمہوریت میں حکومت کے کسی فیصلے پر احتجاج کوئی بغاوت ہے لیکن اس کی بی جے پی کی مہم چلانے والوں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر احتجاجیوں کو زندہ جلا دینے اور کتوں کی موت مارنے کی صلاح دی گئی۔ یہاں پر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کس کو ماروگے؟ کیونکہ مذکورہ قانون کے خلاف ہندوستان کے تمام باشندے کسی قسم کے بھید بھاؤ کے بغیر شامل تھے۔ دہلی کے 2 کروڑ عوام نے مذہبی منافرت کے خلاف اس پروپگنڈے کو ختم کردیا اور بی جے پی کو شکست ِ فاش دی۔ نفرت کے ان سوداگروں نے نفرت کی آگ دہکانے کی پوری طرح سے کوشش کی لیکن دہلی کے ووٹرس نے اس مہم کو ناکام بنادیا ہے۔

امیت شاہ اب یہ کہتے ہیں کہ ’’گولی مارو‘‘ والی بات نہیں کہنی چاہئے تھی۔ ’’بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے‘‘ کے مصداق گھر چلنے کے بعد یہ تسلیم کرنا کہ آگ سے کھیلنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آگ لگانے والے کے ہاتھ بھی جل جاتے ہیں۔ امیت شاہ سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ ’’گولی مارو‘‘ کی بات اگر نقصان دہ تھی، انہوں نے اس کو فوراً روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ اکثر باتوں میں یہ دیکھا گیا کہ خاموشی نیم رضامندی ہوا کرتی ہے۔ امیت شاہ خود بھی کوئی تجربہ کار اور اس ملک سے واقعی محبت رکھنے والے لیڈر نہیں ہیں۔ گجرات کے سابق نائب وزیر داخلہ کی حیثیت سے انہوں نے 2002ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں جو رول ادا کیا، اس کو کبھی اور کسی قیمت پر بھلایا نہیں جاسکتا۔ آج دہلی کے انتخابات میں انہوں نے وہی رول ادا کیا جو گجرات فسادات کے موقع پر کیا تھا۔ اب تو وہ وزارت داخلہ پر موجود ہیں جو چاہے، من چاہے، جب چاہے کرسکتے ہیں۔ ان کا اعتراف کوئی حکمت عملی تو ہوسکتی ہے، کوئی شریفانہ و دیانت دارانہ طرز عمل نہیں ہے۔ ایسے ریمارکس بی جے پی کے بے حد اہم لیڈروں نے کئے تھے۔ مہم کے دوران کئی بار ان کا اعادہ کیا گیا لیکن مودی سرکار یا وزیر داخلہ کی حیثیت سے امیت شاہ نے کسی کی زبان پر روک نہیں لگوائی۔ اب انتخابی شکست کے بعد ان کا یہ ماننا کہ بعض تقاریر نہیں کی جانی چاہئے تھی یا ان میں کہی گئی باتوں کو نہیں دہرایا جانا چاہئے تھا، گویا امیت شاہ اپنی پارٹی کی شکست کے بعد آنکھیں کھولنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب پچھتاوے سے کیا ہوئے، جب چڑیاں چُک گئیں کھیت‘‘ بازی پلٹ چکی ہے اور اس شکست کی ذمہ داری صرف ان لیڈروں پر عائد نہیں کی جاسکتی ہے جو ایسی نفرت انگیز اور زہریلی تقریریں کرتے رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ امیت شاہ کو اندازہ نہیں ہے کہ ان کی پارٹی کے خود لیڈرس ان کی اور وزیراعظم نریندر مودی کی مرضی و منشاء کے بغیر ایسی تقریریں نہیں کرسکتے، اس میں ضرور کسی نہ کسی زاویے سے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی منظوری ان لیڈرس کو حاصل تھی، اب بھی یہ بات طئے ہوتی ہے کہ پارٹی کی اس شرمناک شکست کے ذمہ داروں کو پارٹی میں شامل رکھنا چاہئے یا انہیں نکال دیا جانا چاہئے۔ جہاں تک وزیراعظم مودی کا تعلق ہے، انہیں اس بات پر سوچنا چاہئے کہ امیت شاہ فی الواقعی پارٹی کے ہمدرد ہیں یا وہ اپنی ناتجربہ کاری اور ناقص سوچ کی بناء پر پارٹی کے لئے سخت دشمنی پر اتر آئے یا دشمن بنے ہوئے ہیں۔ امیت شاہ مودی کے ایسے ہمدرد ہیں، جن کی موجودگی میں کسی دشمنی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وزیراعظم رفتہ رفتہ برائے نام وزیراعظم بن رہے ہیں اور پارٹی پر امیت شاہ کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کب پارٹی میں امیت شاہ کے خلاف آوازیں اُٹھے گی، اس کے بارے میں تو کوئی پیش قیاسی نہیں کی جاسکتی، لیکن دہلی چناؤ کے بعد پارٹی کے ڈھانچے میں ایک زلزلہ سا آگیا ہے۔ کئی لیڈرس ابھی تو اپنا منہ بند کئے ہوئے ہیں لیکن پارٹی کی اس شکست کے بعد اب بی جے پی اپنی انتخابی حکمت عملی کو بدلنے پر مجبور ہوگئی ہے کیونکہ پارٹی کے کچھ لیڈرس اب بھی یہ محسوس کررہے ہیں کہ امیت شاہ۔ مودی کی حکومت میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہو پارہا ہے۔ امیت شاہ کا اعتراف کہ چند تقاریر نے انہیں نقصان پہنچایا ہے، اس لئے قابل قبول نہیں ہے کہ ساری مہم کے دوران نفرت کی منڈی لگائی گئی اور اس کا بازار گرم کیا گیا اور امیت شاہ مودی کی ٹیم نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔ یہ نفرت انگیز تقاریر اور مہم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رچائی گئی۔ جن لیڈرس نے ایسی تقاریر کی ان کو پورا یقین تھا کہ پارٹی کی صف اول کی قیادت کوئی جواب طلب نہیں کرے گی۔ کم از کم امیت شاہ اور مودی کو اس بات کا یقین تھا کہ نفرت کی آگ اس کے اقتدار کو پختہ کرے گی۔ یہ آگ کتنی تباہ کن ثابت ہوئی، اس میں ان دونوں لیڈرس اور خاص طور پر امیت شاہ کو کوئی اندازہ نہیں ہے۔ انہیں تو صرف اس بات کی فکر کھائی جارہی ہے کہ کس طرح ہندوستانی عوام کے درمیان مذہب کی دیوار کھڑی کی جاسکتی ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ فرقہ پرستی کی دہکائی ہوئی اس آگ میں عام ہندوستانی کا کوئی عمل دخل نہیں اور نہ ہی کوئی حصہ ہے۔ عام ہندوستانی تو صرف روزمرہ کی زندگی میں امن و سکون اور تین وقت کی روٹی کا محتاج ہوا کرتا ہے۔ ہندوستان کا شمار آج دنیا کی اقوام میں ایک معتبر ملک کی طرح قائم ہے، سکیورٹی کونسل میں اس کی رکنیت پر اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی، اس کے باوجود بھی ملک کی یہ حکومت ثابت کررہی ہے کہ کسی بین الاقوامی ذمہ داری کو وہ پورا نہیں کرسکتی۔ ہم ایک ایسا ملک ہیں جس کی آبادی میں ہر سال اتنا اضافہ ہوتا ہے کہ کسی یوروپی ملک کی آبادی ہوتی ہے۔ آخر کب تک ہم بی جے پی کی اس کوتاہ بینی کے شکار بنے رہیں گے، خاص طور پر مسلمان اور دیگر اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ نئے شہریت قوانین سے یہ اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ عام ہندوستانیوں کو مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دُور کیا جارہا ہے اور بالخصوص مسلم اقلیت ایک گھناؤنی سازش کی شکار ہوتی جارہی ہے، جس سے یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ اس ملک میں اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان اپنی شناخت باقی نہیں رکھ سکے گا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے بڑے پتہ کی بات کہی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اگر بی جے پی اسی طرح پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کرے گی تو مسلم طبقہ بھی آواز اٹھائے گا اور ملک میں ایک نئی فرقہ وارانہ لہر چل پڑے گی۔ اس قسم کے اندیشے اور گوشوں سے بھی ظاہر کئے جارہے ہیں۔ ملک کی سابق خاتون اسپیکر نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ کسی تحریک میں مسلمان خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور اس پر یہ کہ لڑکیاں و طالبات بھی سڑکوں پر نکل پڑی ہیں۔ انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ یہ ایک مثبت علامت ہے لیکن ان کا مشاہدہ یقینا لائق تعریف ہے۔ امیت شاہ نے اپنی پارٹی کی شکست پر اظہار تاسف تو نہیں کیا بلکہ ان کی اپنی عادت کے مطابق بہانے بازی کرتے ہوئے یہ کہا کہ بی جے پی کوئی انتخابات محض اقتدار حاصل کرنے کیلئے نہیں لڑتی بلکہ وہ اپنی آئیڈیالوجی کے فروغ کی خاطر اس کا انتخابی میدان میں سرگرمی سے حصہ ہوا کرتا ہے۔ سی اے اے قانون کی منسوخی کے لئے اس جدوجہد سے تعلق خاطر ظاہر کرنے کیلئے بنارس میں وزیراعظم نے ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ قانون نہیں روکا جائے گا اور امیت شاہ نے اپنے سیاسی گرو مودی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پولیس کو اشارہ دیا کہ وہ احتجاجیوں کے تعلق سے طاقت کا استعمال جم کر کریں، کیونکہ بی جے پی کی قیادت اس طرح جلتے پر تیل چھڑک رہی ہے، اس کا خمیازہ بھگتنے کیلئے پارٹی کو تیار رہنا چاہئے، یہ ایک ایسا بارود ہے جس پر ایک چنگاری بھی گرے تو دھماکہ ہوسکتا ہے۔