انتخابات اور فسادات کا انتباہ

   

کرناٹک میں جاری انتخابات میں بی جے پی کی جانب سے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی یہ دعوی کر رہی ہے کہ اسے ریاست میں کامیابی مل سکتی ہے تاہم جو حالات ہیں وہ بی جے پی کے خلاف ہیں ۔ عوام میں حکومت کے خلاف ناراضگی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے ۔ کئی سروے میں کانگریس کی اقتدار پر واپسی کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں ۔ بی جے پی کے کئی قائدین ٹکٹ سے محروم کئے جانے کی وجہ سے پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ وہ کانگریس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات ‘ بد انتظامی کے الزامات اور فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی وجہ سے ریاست میں بی جے پی کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کی جانب سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ رائے دہندوں کو خوفزدہ کیا جائے ۔ ان کے ذہنوں پر اثر انداز ہوکر ان کے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ ریاست میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کی جانب سے مقامی اور ریاستی مسائل کو توجہ کے ساتھ عوام کے درمیان پیش کیا جا رہا ہے ۔ انتخابی مہم کی ذمہ داری بھی مرکزی قائدین سے زیادہ ریاستی قائدین کو سونپی گئی ہے ۔ وہی اس مہم کی قیادت بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ اس کے برخلاف بی جے پی کی جانب سے ریاستی قائدین کو کہیں پس پشت ڈالتے ہوئے مرکزی قائدین اوروزیر اعظم کے چہرے پر ووٹ مانگے جا رہے ہیں۔ بی جے پی عوامی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے اب فسادات کا خوف پھیلانے کی کوشش بھی کر رہی ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے بی جے پی کی انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے تقریر میں خبردار کیا کہ اگر کرناٹک میں کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات ہونگے ۔ یافسوس کی بات یہ ہے کہ یہ انتباہ ملک کے وزیر داخلہ کی جانب سے دیا جارہا ہے حالانکہ وزیر داخلہ ہی ملک میں لا اینڈ آر ڈر کی برقراری کے ذمہ دار ہیں۔ انتخابات میں اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اور عوام کو خوف میں مبتلا کرنے والے بیانات کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے اور خاص طورپر ذمہ دار افراد کو تو اس سے گریز ہی کرنا چاہئے ۔
ریاست میں بی جے پی مخالف رائے عامہ کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کے قائدین اس طرح کی بیان بازیوں پر اتر آئے ہیں۔ چند دن قبل بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کرناٹک میں کانگریس کو اقتدار ملتا ہے تو کرناٹک کے عوام کو وزیر اعظم کا آشیرواد حاصل نہیں ہوگا ۔ا س کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملک کے وزیر اعظم ملک کے عوام سے زیادہ بالاتر ہیں اور وزیر اعظم کو ملک کے عوام کی نہیں بلکہ عوام کو وزیر اعظم کے آشیرواد کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرا پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس کسی ریاست میں کسی اپوزیشن جماعت کی حکومت ہوگی اس ریاست کو مرکز کے سوتیلے سلوک کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ بی جے پی کے خلاف کئی ریاستی حکومتوں نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کی مرکزی حکومت اپوزیشن ریاستوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہی ہے ۔ جے پی نڈا کے بیان کے تناظر میں اپوزیشن کے یہ الزامات درست ہی دکھائی دیتے ہیں۔ بی جے پی قائدین کی تقاریر سے ان کا اشارہ ملنے لگا ہے ۔ ایک طرف سوتیلے سلوک کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ فسادات کا انتباہ دیا جا رہا ہے ۔ یہ شبہات بھی تقویت پاتے ہیں کہ جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہوتی وہاں فرقہ وارانہ فسادات کس گوشے سے کروائے جاتے ہیں ؟ ۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا بی جے پی قائدین کو جواب دینے کی ضرورت ہوگی ۔ اس طرح کے بیانات کے ذریعہ ووٹرس کے ذہنوں پر اثرا نداز ہونے کی کوشش افسوسناک کہی جاسکتی ہے ۔
انتخابی مہم کے حالات چاہے جو کچھ بھی ہوں ‘ انتخابات کے نتائج چاہے جو کچھ بھی ہوں یہ عوام کا فیصلہ ہوتے ہیں اور عوام کے فیصلے کو ملک کی ہر سیاسی جماعت اور ہر لیڈر کو تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔ اس طرح سے عوام کو خوفزدہ کرتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں افسوسناک کہی جاسکتی ہیں اور زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ لا اینڈ آرڈر کی برقراری کے ذمہ دار وزیر داخلہ کی جان سے اس طرح کے اندیشوں کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کرناٹک کے عوام کو تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل اور مفادات کے مطابق اپنا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی طرح کے اندیشوں اور واہموں کا شکار ہوئے بغیر یا کسی خوف کا شکار ہوئے بغیر انہیں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔