جس کے سائے میں پناہ لیتا ہوں گرجاتی ہے
ایسی دیواروں کے سائے سے پریشان ہوں میں
ملک کی دو اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات چل رہے ہیں۔ انتخابی مہم زوروںپ ر پہونچ رہی ہے ۔ جھارکھنڈ میں تو پیر کو پہلے مرحلے کی مہم مکمل بھی ہو جائے گا ۔ مہاراشٹرا میں 18 نومبر کو انتخابی مہم کا اختتام عمل میں آئے گا ۔ اہم سیاسی جماعتوں کانگریس ‘ بی جے پی ‘ جے ایم ایم ‘ این سی پی اور شیوسینا کے دونوں گروپس انتخابی مہم میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ ملک میں عا م انتخابات ہوں یا پھر کسی ریاست کے اسمبلی انتخابات ہوں ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ایک مخصوص مسئلہ کو اجاگر کرتے ہوئے سماج کے مختلف طبقات میں خوف اور ڈر کا ماحول پیدا کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے ۔ وہ اپنے کام کاج یا پروگراموں و منصوبوں کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کبھی نہیںکرتی بلکہ ہمیشہ ہی ڈر و خوف کی سیاست کرتی ہے اور رائے دہندوں میں خوف پیدا کرتے ہوئے اپنے لئے فائدہ حاصل کرنے کی حکمت عملی پر کام کرتی ہے ۔ جس وقت ملک میں عام انتخابات ہوئے تھے اس وقت بھی بی جے پی کی جانب سے اس کے کئی بڑے اور اہم قائدین نے تحفظات کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش کی تھی اور یہ الزام عائد کیا تھا کہ کانگریس پسماندہ طبقات سے تحفظات چھین کر اقلیتوں کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے ۔ ملک کے وزیر اعظم نریندرمودی نے تو یہ تک کہا تھا کہ عوام کی زمین اور گھرا ور دولت وغیرہ بھی چھین لی جائے گی اور انہیں اقلیتوں میں تقسیم کردیا جائے گا ۔ خاص طور پر پسماندہ طبقات میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کے مقصد سے بارہا یہ دعوی کیا جاتا رہا کہ کانگریس پارٹی پسماندہ طبقات سے تحفظات چھیننا چاہتی ہے اور یہ تحفظات اقلیتوں کو دینے کی حمایت کرتی ہے ۔ مہاراشٹرا میں جاری اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران بھی بی جے پی اور اس کے اعلی قائدین اسی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں اور وہاں بھی پسماندہ طبقات میں خوف کا ماحول پیدا کرتے ہوئے سیاسی فائدہ اور ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ کانگریس پارٹی پسماندہ طبقات کے تحفظات کو اقلیتوں کو سونپنا چاہتی ہے تاہم بی جے پی ایسا کرنے نہیں دے گی ۔
بی جے پی کی یہ مہم منفی سوچ کا نتیجہ ہے اور منفی مہم ہی کہی جاسکتی ہے کیونکہ بی جے پی مہاراشٹرا میں اپنے کارنامے پیش کرتے ہوئے اور عوامی خدمات کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے ووٹ مانگنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ بات صرف مہاراشٹرا کی بھی نہیں ہے ۔بی جے پی ملک بھر میں کہیں بھی ترقیاتی پروگراموں پر ووٹ نہیں مانگتی بلکہ مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہوئے ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ عوام میں خوف و ہراس پیدا کرتے ہوئے ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ خود بھی ایسا کرنے سے گریز نہیں کرتے اور انہیں اپنے سیاسی فائدہ کے آگے دستوری عہدوں کے وقار کی بھی پرواہ نہیں رہ جاتی ۔ ملک کے وزیر داخلہ خود سماج کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے خلاف ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس طرح کے بیانات سے سماج کے مختلف طبقات کے مابین ہم آہنگی کی فضاء متاثر ہوتی ہے اور ان طبقات میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ بی جے پی بھلے ہی اس سے اپنے لئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے لیکن سماج میں دوریوں کے ذریعہ جو نقصان ہوتا ہے اس کی پابجائی ممکن نہیں رہ جاتی ۔ یہ انتہائی بیمار سوچ اور بیمار ذہنیت کا نتیجہ ہے اور اس کے ذریعہ سماج میں بے چینی اور نراج کی کیفیت پیداہو سکتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ پسماندہ طبقات کے تحفظات چھین کر اقلیتوں کو دینے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ کانگریس پارٹی تو سماج میں مختلف طبقات کے تناسب کا جائزہ لے کر ان کو ان کا حق دلانے اور ترقی کے سفر میں شامل کرنے کی وکالت کرتی ہے ۔
ملک میں جن ریاستوں میں کانگریس کا اقتدار ہے وہاں پارٹی کی جانب سے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی جا رہی ہے ۔ اس کا واحد مقصد یہی ہے کہ سماج میں کس طبقہ کی کتنی تعداد ہے اس کا جائزہ لیا جائے ۔ تعداد کے اعتبار سے انہیں تحفظات فراہم کئے جائیں۔ راہول گاندھی نے اعلان کیا ہے کہ کانگریس پارٹی مرکز میں برسر اقتدار آتی ہے تو تحفظات کی حد کو ختم کرتے ہوئے تمام طبقات کو ان کا حق دینے کی کوشش کرے گی ۔ بی جے پی کے جھوٹے پروپگنڈہ اور منفی مہم سے ملک کے عوام اور خاص طور پر مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے عوام کو گمراہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ جھوٹی تشہیر کو مسترد کیا جانا چاہئے ۔